آپ بھی کہانی تخلیق کریں اور جیتیں ہزاروں کے نقد انعامات

Black King by Danish Ahmad Shahzad - Imran Series - Digital Kahani



بلیک کنگ

عمران اس وقت اپنے فلیٹ میں بیٹھا تھااخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک کال بیل بج اٹھی۔سلیمان ابے او سلیمان کےبچے باہر ذرا دیکھنا کون ہےاگر فقیر ہو تو اسےاندر بلا لیناعمران کی اونچی آواز میں سلیمان کو آواز دیتے ہوئے کہااور خوداخبارپڑھنےمیں مصروف ہو گیا کہ اس کو سلیمان نے بتا دیا کہ سوپر فیاض آیاہے۔چونکہ سلیمان سوپر فیاض کوزبردستی ڈرائنگ روم میں بیٹھا کر آیا تھا عمران نے اخبار میز پر رکھ دی اور ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑا۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔۔عمران نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی کہا۔اس وقت اس کے چہرے پر حماقتوں کی آبشاریں بہہ رہی تھیں۔
یہ یہ  سب کیا ہے مجھے میرے ہی فلیٹ میں مہمان  بنا دیا ہے کیوں؟ سوپر فیاض نے عمران کو اندر داخل ہوتے ہی غصیلے لہجے میں کہا۔
دو لیٹرحوض اس میں اتنا چلانے کی کونسی بات ہے یہ فلیٹ  میرا ہے اور اپنے گھر میں انسان کسی حال میں بھی ہو سکتا ہے۔اس لیے تمہیں مہمان کا درجہ دیا ہے اگر تم مہمان نہیں بننا چاہتےتو ٹھیک ہے تم میزبان اور اب میں مہمان ہوں میری خاطرو مدارت کرو  نکالو شربت،کافی وغیرہ کے لیے پیسے جلدی کرو میرے پیٹ میں چوہے بیڈ مینٹن کھیل رہے ہیں۔اگر وہ باہر نکل آئے تو پھر۔۔۔ عمران کسی زبان کو موقع ملتے ہی چل پڑی۔


اچھا چھو ڑو ان باتوں کو تم میرے ساتھ چلو میں اس وقت بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہوں۔ سوپر فیاض نے اٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔
کک۔۔۔ کہاں جانا ہے اور میں تم  کے  ساتھ نہیں جاؤں گا۔ مجھے شرم آتی ہےعمران کے شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
کیوں کیوں تم میرے ساتھ نہیں جاؤ گے۔میں کیا لڑکی ہوں جو تمہیں میرے ساتھ چلتے شرم آتی ہے۔سوپرفیاض نے کہا۔
نہیں نہیں میں نے تمہیں کب لڑ کی کہا ہے۔ ٹھیک ہے اگر تم خودہی لڑ کی بننے کے لیے تیار ہو تو ٹھیک ہے میں تمہارا بھائی بن کر آج ہی اخبار میں تمہارے رشتے کے لیے اشتہار شائع کراتا ہوں کہ دو لیڑ حوض جناب کو ایک اچھے معصوم اور شریف آدمی کی ضرورت ہے۔عمران کے فون کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
میرا نام دو لیٹر حوض نہیں سوپر فیاض ہےاور یہ تم کیا کرنے لگے ہو۔ سوپر فیاض نے حیرت بھرے لہجےمیں کہا۔
 میں اخبار والوں کو تمہارے رشتے کے کے اشتہار کے لیے فون کرنےلگا ہوں۔۔۔عمران نے نمبر پر یس کرتے  ہوئے کہا۔ جبکہ فیاض کے آگے بڑھ کر کریڈل  دبادیا۔
عمران پلیز میری بات سن لو تمہیں میرے ساتھ ایک کیس میں میری مدد کرناہے۔سوپرفیاض اب عمران کی  منتیں کرنے پر اتر آیا تھا اسے پتا تھا اب اگر بات نہ کی تو عمران نے مذاق کرنے سے باز نہیں آنا۔
دد۔۔۔ دیکھو مم میں عمران پو لیس  نہیں بلکہ میرا نام علی عمران ایم ایس سی ڈی ایس سی آکسن ہے۔عمران نے کہا
پلیز میری مدد کرو ورنہ میری نوکری چلی جائے گی۔سوپر فیاض نے بے بسی سے کہا
اچھا ٹھیک ہےمیں تمھاری مدد کرو گا لیکن چار لاکھ روپے ایڈوانس اور ایک لاکھ کام ہونے کے بعد اگر منظور ہے تو پھرکیس کی تفصیلات بتاؤ۔عمران کے صوفے پر سے  اٹھتے ہوئے کہا۔






کک کیا تم اس کیس کے لیے پانچ لاکھ روپے لو گےلیکن میرے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے  نہیں ہیں۔ یہی کہنا چاہتے ہو ٹھیک ہے۔تم کیس کی تفصیلات بتاؤ میں خودہی سٹی بینک میں سےروپے نکلوالوں گا۔عمران کےدوبارہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا جبکہ سوپر فیاض نے اپنا سر پِیٹ لیا۔
تت ۔۔۔ تم واقعی شیطان ہو۔۔۔ تم سے کوئی چیز نہیں چھپی رہتی، لیکن ٹھیک ہے میں تمہیں چار لاکھ کا چیک بنا دیتا ہوں ۔ سوپر فیاض نے رونی شکل میں کہا اور جیب سے چیک بک نکال کر چار لاکھ کا چیک بنا کر عمران کی طرف بڑھا دیا۔
عمران نے چیک کو جھپٹ کر پکڑ لیا جیسے ڈر ہو کہیں سوپر فیاض چیک واپس نہ لے لے۔
ہاں اب بتاؤ کہ کیس کس طرح کا ہے ۔ عمران نے چیک جیب میں ڈال کر پوچھا۔
عمران دو دن پہلے میرے ایک گروپ نے ایک آدمی کو پکڑا تھا وہ منشیات بیچتا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا جب اس کو تھانے لا کر اس سے پوچھ گچھ کی گئی ، پہلے پہلے تو وہ انکار کرتا رہا کہ اُس کو منشیات کا نہیں پتہ کہ یہ کہاں سے آتی ہے اس کو صرف ایک آدمی آکر دے جاتا ہے لیکن جب تشدد سے اس کو سچ بولنے پر مجبور کیا گیا تو اس نے ایک جگہ کا پتہ بتایا کہ منشیات کا اڈا فلاں جگہ ہے جب اُس جگہ چھاپا مارا گیا تو وہاں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا جبکہ سر عبدالرحمان نے حکم صادر کردیا ہے کہ کچھ بھی ہو منشیات کا اڈا اور ڈرگ فروخت کرنے والوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے، چونکہ وہاں سے ڈرگ کے کسی اور جگہ کے منتقل کرنے کے شواہد نہیں ملے میں نے وہاں جاکر خود تحقیق کی مگر کوئی ایسا کلیو نہیں ملا جس سے آگے بڑھا جائے اس لئے میں اب تمہارے پاس آیا ہوں۔ سوپر فیاض نے کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
اچھا تو اب تم سے یہ کیس ہی حل نہیں ہورہا ۔۔۔ کیوں کیا اب تم صرف حکم چلانے کے لئے رہ گئے ہو؟ عمران نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
عمران میں نے بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ سوپر فیاض نے کہا۔
ٹھیک ہے چلو اٹھو اور مجھے وہ جگہ یعنی منشیات کا اڈا دکھاؤ۔۔۔ عمران نے اٹھتے ہوئے کہا۔ اور وہ فلیٹ سے نکل کر پولیس کی جیپ میں بیٹھ کر اس جگہ چل دیئے جہاں پر ڈرگ و مافیہا کا معلوم اڈا تھا۔

یہ ایک شاندار عمارت تھی اس کے ایک کمرے کو آفس کے انداز میں سجایا گیا تھا جبکہ میز کے پیچھے کرسی پر ایک گینڈے جیسے جسم کا مالک شخص بیٹھا ہوا تھا، اس کے چہرے پر خباثت چھائی ہوئی صاف نظر آرہی تھی اور وہ ایک فائل کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
یس ۔۔۔ سٹاگر بول رہا ہوں ۔۔۔ اس نے رسیور کان سے لگاتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
باس ٹونی بول رہا ہوں ، ابھی ابھی مجھے ایک رپورٹ ملی ہے ۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔
رپورٹ بتاؤ کیا ہے اور کس لئے فون کیا ہے ۔ سٹاگر نے غراتے ہوئے کہا ۔
سوری باس ۔۔۔ رپورٹ میں باس علی عمران نامی شخص سوپر فیاض کی جیپ میں سابقہ اڈے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ مزید انکوائری کرنے سے پتہ چلا کہ یہ عمران سوپر فیاض کا دوست ہے اور اس کے لئے کام بھی کرتا رہتا ہے۔اور باس ایک حیرانی والی بات یہ ہے کہ جس میں یہ ہاتھ ڈال لے تو کچھ بھی ہو کامیابی اس کے قدم چومنے لگتی ہے۔دوسری طرف سے ڈرتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے تم اس پر مسلسل نظر رکھو اور مجھے رپورٹ دیتے رہو۔ سٹاگر نے یہ کہہ کر رسیور رکھ دیا اس کی پیشانی پر فکر کی لکیریں ابھر آئیں اس کو چونکہ عمران کے بارے میں پرہ تھا اس لئے اس کا ایسا ردِ عمل تھا ۔
مجھے بلیک کنگ سے بات کرنا ہی ہوگی اگر اس کوپتہ لگ گیا کہ ہمارا ایک آدمی ڈرگ فروخت کرتا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے تو وہ ہمیں نہیں چھوڑے گا۔ سٹاگر نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور رسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کرنے شروع کردیئے۔
یس ۔۔۔ دوسری طرف سے چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔
سٹاگر بول رہا ہوں ۔۔۔ باس سے بات کراؤ۔ سٹاگر نے کہا۔
کوڈ بتاؤ ۔۔۔! دوسری طرف سے اسی انداز میں کہا گیا۔
ڈی فور الیون۔۔۔ سٹاگر نے کہا اور پھر ہلکی سی کلک کی آواز کے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہوگیا اور سٹاگر نے رسیور رکھ دیا اور لگ بھگ پانچ منٹ بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ اور سٹاگر نے رسیور اٹھا کر کان سے لگا لیا۔






یس سٹاگر بول رہا ہوں ۔۔۔ سٹاگر نے سخت لہجے میں کہا۔
بلیک کنگ ۔۔۔۔ دوسری طرف سے غراتی ہوئی آواز آئی۔
یس باس میں نے اس لئے فون کیا تھا کہ اب ہم سب کو خطرہ ہے۔ سٹاگر نے کہا
خطرہ ۔۔۔؟ لیکن کیسا۔۔۔؟ تفصیل بتاؤ۔ بلیک کنگ نے چونک کر مگر سخت لہجے میں کہا۔اور سٹاگر نے تفصیل بتانی شروع کردی۔
تم صرف عمران کی نگرانی کرو اور بس۔۔۔ بلیک کنگ نے کہا اور سٹاگر نے اوکے کہہ کر رسیور رکھ دیا۔

عمران اس وقت سوپر فیاض کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا وہ اس جگہ کی تفصیل سے تلاشی لے کر آیا تھا وہاں ردی سے ایک کارڈ کا ٹکڑا ملا تھا جس پر بلیک کلب کا نام پتہ ادھورا تھا مگر عمران نے اپنی خداد صلاحیت سے اندازہ لگا لیا کہ یہ بلیک کلب کا کارڈ ہے اس میں عمران کی باخبری بھی کار فرما تھی کیونکہ وہ اس کلب کے بارے میں جانتا تھا وہاں زیر زمین لوگ ہی آتے جاتے ہیں۔اور یہ جگہ کسی کے لئے محفوظ نہیں تھی وہاں کے غنڈے بے رحم اور سفاک تھے اور وہ بغیر کسی وجہ کے آدمی کو اس طرح قتل کرتے ہیں جیسے انسان ان کے سامنے حقیر کیڑے ہوں اسی وجہ سے پولیس بھی اس طرف جانے سے کتراتی ہے۔ وہاں سے واپسی پر عمران کو ایک آدمی ان کا پیچھا کرتا ہوا نظر آیا تھا جس کو عمران ساتھ لے آیا تھا تھانے لاکر اس سے پوچھ گچھ کی گئی جس سے معلوم ہوا کہ سی کلب کا منیجر سٹاگر بھی اس دھندے میں ملوث ہے اور اس نے ہی اس کو ان کی نگرانی کے لئے کہا ہے، سٹاگر ایک الگ کوٹھی میں رہتا ہے اور بہت کم افراد سے ملتا جلتا ہے۔
سوپر فیاض تم جلدی ٹیم لے سٹاگر کی کوٹھی پر ریڈ کرو اور وہاں سے کوئی زندہ نہیں بچنا چاہیئے میں بلیک کلب جارہاہوں۔کیونکہ مجھے میری چھٹی حس بار بار بلیک کلب کی طرف جانے کا کہہ رہی ہے۔ عمران نے اٹھ کر دفتر سے نکلتے ہوئے کہا اور ٹیکسی لے کر فلیٹ کی طرف چل پڑا جبکہ کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے فلیٹ سے کار نکال کر بلیک کلب کی طرف اُڑا جارہا تھا۔
بلیک کلب کی پارکنگ میں عمران نے کار کھڑی کی اور مین گیٹ کی طرف چل پڑا، مین گیٹ پر کھڑے غنڈے نے عمران کو دیکھ کر روک لیا کیونکہ وہ راستے میں ہی ایک خطرناک غنڈے کا میک اپ کرچکا تھا۔
کون ہو تم اور یہاں پہلے تو کبھی نظر نہیں آئے۔۔۔؟ گیٹ پر موجود کھڑے غنڈوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر عمران سے پوچھا لیکن اس کا لہجہ بے حد سخت تھا۔
تم  میرے آگے سخت لہجے میں بات کررہے ہو ریڈ ماسٹر کے آگے ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بات کرتے عمران نے قریب کھڑے غنڈے کو اٹھا کر دوسرے غنڈے پر پھینک دیا کیونکہ وہ جیب سے ریوالور نکال رہا تھا عمران ان دونوں کے نیچے گرتے ہی کلب میں داخل ہو گیا اندر شراب، نشے کا غلیظ دھواں ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ عمران نے کاؤنٹر سے منیجر کا پوچھا ہی تھا کہ وہ دونوں دربان جنہیں عمران گرا کر آیا تھا اندر آگئے وہ دونوں غصے سے بھرے ہوئے تھےاور ان کے ہاتھوں میں ریوالور صاف نظر آرہے تھے جن کا رُخ عمران ہی کی طرف تھا اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتے عمران اچھل کر کاؤنٹر کی دوسری جانب کھڑا ہو گیا اور عمران کو اچھلتے دیکھ کر انہوں نے گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں کاؤنٹر پر کھڑا غنڈا ان کی گولیوں کا شکار ہوگیا ادھر عمران نے زخمی غنڈے کے کندھے سے مشین گن جھپٹ کر دونوں غنڈوں پر فائرنگ کردی جس سے ہال میں بے پناہ چیخوں کا شور بلند ہوگیا جبکہ جس غنڈے سے عمران نے مشین گن لی تھی وہ دم توڑ چکا تھا۔


عمران نے ہال میں موجود غنڈوں کا خاتمہ کیا اور ایک راہداری کی طرف چل پڑا جیسے ہی وہ راہداری میں آگے بڑھا چھت سے تیز روشنی چمکی اور عمران کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے جسم سے ساری توانائی سلب کرلی گئی ہے اور وہ گر پڑا، عمران کا جسم مفلوج ہوکر رہ گیا وہ دیکھ سکتا تھا، سن سکتا تھا سوچ سکتا تھا لیکن حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ ابھی اس کو راہداری میں پڑے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سائیڈ سے دیوار غائب ہوگئی اور وہاں سے دو آدمی نکلے اور عمران کو اٹھا کر لے گئے۔
دو آدمی عمران کو اٹھائے دو راہداریوں سے گزر کر تہہ خانے میں پہنچ گئے اور عمران کو کرسی پر باندھ کر واپس چلے گئے ادھر عمران نے اپنی توانائی کی بحالی کے لئے سوچنا شروع کردیا مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

یہ بلیک کلب کے تہہ خانے میں ایک کمرہ آفس کے انداز میں سجایا گیا تھا اور ٹیبل کے پیچھے پہلوان نما آدمی بیٹھا ہوا تھا اس کے چہرے پر خباثت اور سفاکی نمایاں تھی یہی پاکیشیا میں منشیات کا دھندہ کرنے والا بلیک کنگ تھا اس سے اس کے کلب والے اور زیر زمین کے افراد سب ڈرتے تھے اس وقت وہ اپنے آفس میں بیٹھا ایک فائل دیکھ رہا تھا کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بج اٹھی اس نے رسیور کان سے لگایا کچھ سننے کے بعد اس نے رسیور رکھ دیا پھر کچھ دیر بعد اس نے رسیور اٹھا کر سٹاگر کے نمبر پریس کرنے شروع کردئیے۔
یس ۔۔۔ سٹاگر بول رہا ہوں ۔ دوسری طرف سے رابطہ قائم ہوتے ہی آواز آئی۔
بلیک کنگ۔۔۔ بلیک کنگ نے کہا تو سٹاگر نے اس کو تفصیل بتانی شروع کردی جسے سن کر بلیک کنگ نے عمران کی نگرانی کا حکم دے کر رسیور رکھ کر سوچنے لگا کہ اچانک وہ اس طرح اچھل پڑا جیسے اس کے پاؤں میں بم پھٹ پڑا ہو، اس نے فورا ایک طرف کی الماری کھولی اور اس میں ایک عجیب سی مشین پر لگی سکرین پر بلیک کلب کا ایک ایک حصہ ااس کو نظر آنے لگا ۔ کافی دیر بعد اس نے بلیک کلب کے دو غنڈے جو کہ مین گیٹ پر کھڑے تھے ان کو اندر ایک غنڈے کی طرف آتے دیکھا انہوں نے ریوالور نکال کر اس اجنبی غنڈے کی طرف کرکے چلا دیا لیکن غنڈہ کافی ہوشیار نکلا اس نے جمپ لگایا اور کاؤنٹر کے اندر جا کھڑا ہوا، جبکہ اپنے ہی غنڈوں کے ہاتھوں چلائی ہوئی گولیاں کاؤنٹر مین کو ڈھیر کرچکی تھیں اور پھر ہال میں گولیوں اور اپنے ہی آدمیوں کی خونریز لمحات کو دیکھتے ہوئے اس کا خون کھول رہا تھا مگر یہاں سے وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا اگر باہر سے کسی کو بلاتا تب بھی کوئی یقین نہیں تھا کہ ایک اجنبی غنڈہ تب تک وہاں رہتا یا نہیں مگر جیسے ہی وہ راہداری کی جانب بڑھا بلیک کنگ کے انتقام کی رگ پھڑکنے لگی اور جیسے ہی وہ مخصوص جگہ سے گذرا بلیک کنگ نے مشین پر سے ایک بٹن دبا دیا جس سے ایک تیز روشنی نکلی اور اس نے پلک جھکنے میں اس کو جامد و ساکت کردیا، پھر اس نے فون کرکے کچھ غنڈوں کو بلا کر اس کو نیچے تہہ خانے میں باندھنے کا کہا  اور لگ بھگ گھنٹہ بعد وہ اپنے دفتر سے اٹھ کر  چل پڑا۔

اچانک عمران کو جسم میں ہلکی سی حرکت کا احساس ہوا شائد استعمال کی گئی ریز کا اثر تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہو یہی سوچ کر عمران نے اپنے جسم کو نارمل کرنے کے لئے کوششیں تیز کردیں ابھی مکمل حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک پہلوان نما غنڈے کے پیچھے وہی دو غنڈے کمرے میں داخل ہوئے جو کچھ قبل اس کو اس تہہ خانے میں باندھ کر گئے تھے۔پہلوان نما غنڈہ جو کہ بلیک کنگ ہی تھا نے ایک کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا جبکہ ساتھ آنے والے دونوں اس کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔
ہاں ۔۔۔ اب بتاؤ ، کون ہو تم اور تم نے اس بے باکی سے میرے کلب میں فائرنگ کرنے کی جرات کیسے کی۔۔۔؟ بلیک کنگ نے عمران کی طرف دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
لہجہ نرم رکھو نہیں تو اپنے نقصان کے تم خود ذمہ دار ہوگے میں ریڈ ماسٹر ہوں اور مجھ سے سخت لہجے میں بات کرنے کا انجام ہی فائرنگ تھی۔ عمران نے اس سے بھی سخت لہجے میں کہا تو بلیک کنگ کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی کیونکہ جس کے نام سے زیر زمین کے لوگ کانپتے تھے آج اس کے سامنے نہ صرف ایک اجنبی غنڈہ اس سے دلیری سے بات کر رہا تھا بلکہ اس کا لہجہ بھی اس سے زیادہ سخت تھا۔
خبردار ۔۔۔ اگر تم نے کنگ کے آگے اس طرح بات کی تو تمہاری لاش بھی کسی کو نہیں ملے گی۔۔۔ اس سے پہلے کے بلیک کنگ خود بولتا اس کے پیچھے کھڑے ایک غنڈے نے سخت لہجے میں کہا۔جبکہ اس دوران عمران کا جسم نارمل ہوچکا تھا اور وہ کسی حد تک ان کی آنکھوں سے اوجھل رسیوں کو کھول چکا تھا۔
یو ۔۔۔ نانسنس ۔۔۔ تم کون ہو ریڈ ماسٹر کو خبردار کرنے والے ۔۔۔ عمران نے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا۔
پومی اس ریڈ ماسٹر کی اکڑ پہلے ختم کرو پھر میں اس سے بات کرتا ہوں ۔۔۔ بلیک کنگ نے اپنے پیچھے کھڑے خاموش غنڈے سے کہا تو پومی عمران کی طرف بڑھا اور وہ عمران کے منہ پر تھپڑ مارنا ہی چاہتا تھا کہ اس سے قبل عمران کی ٹانگ چل چکی تھی اور ٹانگ پومی کی ٹانگوں کے درمیان اتنی زور دار لگی کے وہ اوغ کی آواز نکالتے درد سے دوہرا ہوگیا اس سے پہلے کہ بلیک کنگ اور دوسرا شخص کچھ سمجھتا کہ عمران نے یکدم نہ صرف خود کو رسیوں سے آزاد کیا بلکہ دوہرے ہوئے پومی کو اٹھا کر بلیک کنگ پر اچھال دیا۔جس کی وجہ سے بلیک کنگ اور ساتھ کھڑا غنڈہ پیچھے کو گر گئے اور عمران نے اسی لمحے جیب سے ریوالور نکال کر دونوں غنڈوں پر گولیاں چلا دیں اور یہی لمحہ عمران کے لئے بھاری بھی ثابت ہوا کیونکہ بلیک کنگ نے باوجود بھاری جسم کے اچانک اچھل کر عمران کو پیچھے کو دھکیل دیا مگر وہ شائد عمران کو اچھی طرح نہ جانتا تھا کیونکہ عمران نے پیچھے کو گرتے گرتے بھی انتہائی حیرت انگیز طریقے سے اپنی دونوں ٹانگیں اوپر کو اٹھائیں کہ وہ بلیک کنگ کے منہ پر لگیں جس سے بلیک کنگ بھی پیچھے کو جاگرا۔مگر دونوں اچانک کھڑے ہوگئے۔
تم نے میرے اتنے افراد کو مار کر اپنی موت پر خود دستخط کردیئے ہیں اب تم بچ نہیں سکتے ریڈ ماسٹر۔۔۔ بلیک کنگ نے غراتے ہوئے کہا۔اور ساتھ ہی پھر عمران پر حملہ کردیا وہ عمران کو دھکا دے کر نہ صرف گرانا چاہتا تھا بلکہ ساتھ ہی اس کی ٹانگوں کو پکڑکر توڑنے کا بھی ارادہ کرچکا تھا مگر اس کے آگے بڑھتے ہی عمران اپنی جگہ سے اچھلا اور بلیک کنگ جو کہ اس کی طرف بڑھ چکا تھا اس کہ پیچھے آتے ہی پیچھے کو زور دار ٹانگیں اس کی کمر میں ماری کہ بلیک کنگ اور زور سے پیچھے دیوار میں جالگا اور پھر اس سے پہلے کہ وہ اب سنبھلتا عمران نے مڑتے ہی اس پر تابڑ توڑ حملے کردیئے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے بلیک کنگ کچھ ہی دیر میں بے ہوش ہوگیا۔
عمران نے بلیک کنگ کو کرسی پر باندھا اور اس کے چہرے پر زور دار تھپڑ مارا اور وہ پہلے ہی تھپڑ پر ہوش میں آگیا۔
تت ۔۔۔ تم زندہ نہیں جاسکتے  یہاں سے ۔۔۔ بلیک کنگ نے ہوش میں آتے ہی چلاتے ہوئے کہا ۔
بلیک کنگ ڈرگ کی تفصیلات بتاؤ میرے پاس تمہاری فضول باتیں سننے کا وقت نہیں ہے۔۔۔ عمران نے سخت لہجے میں کہا۔
کون ہو تم ۔۔۔ بلیک کنگ نے الٹا سوال کردیا۔






میرے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو پھر آنکھیں بند کرلو، کان اتار لو، سر نیچے کرلو اور ٹانگیں اوپر کرلو۔۔۔ عمران نے کہا۔
کہیں تم عمران تو نہیں ہو۔۔۔ اچانک بلیک کنگ نے پوچھا۔
نہیں مجھے علی عمران ایم ایس سی ڈی ایس سی  کہتے ہیں۔ عمران نے کہا۔
اوہ ۔۔۔ لیکن عمران تم پھر بھی یہاں سے زندہ نہیں جاؤ گے اور میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا ۔۔۔ بلیک کنگ نے کہا اور پھر اس سے پہلے کہ بلیک کنگ کچھ سمجھتا کہ اچانک عمران نے جیب سے چاقو نکال کر بلیک کنگ کی بازو میں گھسیڑ دیا اور بلیک کنگ نہ چاہتے ہوئے بھی چیخ پڑا پھر تو جیسے عمران پر دورہ پڑ گیا ہو وہ کبھی بازو پر کبھی ٹانگوں پر چاقو چلاتا گیا اور بلیک کنگ بے ہوش ہوگیا۔اس کو بے ہوش ہوتا دیکھ کر عمران نے اس کے کان کو تیز دھار سے کاٹ دیا جس سے بلیک کنگ ہوش میں آگیا اور چیخنا شروع کردیا۔
بب ۔۔۔ بب۔۔۔ بتاتا ہوں  ۔۔۔ پپ ۔۔۔ پلیز پانی۔۔۔ بلیک کنگ نے ہوش میں آتے ہی چیختے چلاتے ہوئے کہا۔
نہیں پہلے تفصیل بتاؤ ۔۔۔ عمران نے سرد لہجے میں کہا۔ تو بلیک کنگ نے ٹیپ ریکارڈر کی طرح بولنا شروع کردیا پھر عمران نے بلیک کنگ سے کچھ ضروری سوال کئے اورایک طرف الماری سے فرسٹ ایڈ بکس نکال کر اس کی ڈریسنگ کرنا شروع کردی پھر اس نے بلیک کلب کے تہہ خانوں میں موجود افراد کو گیس کے ذریعے بے ہوش کیا اور خود تہہ خانوں کی باریک بینی سے تلاشی لی جہاں سے اس گندے گروہ کے متعلق بہت زیادہ تو نہیں مگر اتنی معلومات ضرور ملی جس سے سوپر فیاض جلد کاروائی کرکے ان کے نیٹ ورک کو روک سکے۔
تمام کاموں سے فارغ ہوتے ہی عمران نے وہاں موجود فون سے نمبر پریس کرنے شروع کردیئے۔
یس سوپر فیاض بول رہا ہوں ۔۔۔ دوسری طرف سے سوپر فیاض کی آواز آئی۔
فیاض بولتے نہیں ہیں اپنی فیاضی دکھاتے ہیں ، تم بلیک کلب کے تہہ خانوں میں پہنچ جاؤ  تمہارا مطلوبہ شخص اور معلومات یہیں سے مل جائیں گی۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کیا ۔۔۔ کیا ۔۔۔ تم سچ کہہ رہے ہو۔۔۔ دوسری طرف سے فیاض کی حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔
ٹھیک ہے تم نہیں مانتے تو میں کسی انسپکٹر کو یہ اطلاع دے دیتا ہوں پھر نہ کہنا۔۔۔ عمران نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
نن۔۔۔ نہیں پلیز عمران ایسا نہ کرنا ۔ سوپر فیاض نے بوکھلاتے ہوئے کہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عمران سے کچھ بھی بعید نہیں۔
پھر فیاضی دکھاتے ہو یا۔۔۔؟ عمران نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے میں ابھی ٹیم کے ساتھ پہنچ رہا ہوں ۔ دوسری طرف سے سوپر فیاض نے تیز تیز لہجے میں کہا اور عمران نے مسکراتے ہوئے فون بند کردیا۔

Post a Comment

0 Comments