ملک میں سوگ کا اعلان ہوچکا تھا اور ہر طرف ماحول سوگوار تھا جبکہ ملک کی اعلیٰ شخصیات کا ہنگامی اجلاس جاری تھا جس میں آنے والے دنوں کے بارے میں پلاننگ کی جارہی تھی، اور دوسری طرف کرنل ڈی کی طرف سے میجر پرمود کو نئے مشن کی فائل موصول ہوچکی تھی جس میں بلغاریہ کے صدر اور ملکی وزراء کی جانب سے کمانڈر کی شہادت کا بھرپور جوابی حملہ کی حمایت اور ایکریمیا سے بدلے کی اپیل کی گئی تھی اور سب جانتے تھے کہ ملک کو ایسی صورت حال سے نکالنے میں جہاں سب کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ضروری ہے وہاں مخالفوں کے حملوں کا جواب دینا بھی ملکی سالمیت کے لئے انتہائی ضروری تھا اس میں جواب کے لئے سب سے پہلا نام میجر پرمود کا ہی آیا تھا اور سب کی نظریں اب میجر پرمود پر ہی تھیں اسی بنا پر نئے آپریشن کی فائل میجر پرمود پڑھ چکا تھا اورآپریشن کی تیاری کے لئے تیار تھا۔
میجر پرمود نے اپنے ساتھ کیپٹن توفیق کو لیا اور مشن کی تکمیل کے لئے نکل پڑا میجر پرمود کو پتہ تھا کہ جب تک بارڈر پار دشمن کے ٹھکانوں کو نیست و نابود نہ کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا اس لئے دونوں اس وقت بارڈر لائن کی حد سے نکل کر دشمن کی حدود میں داخل ہوچکے تھے چونکہ یہ سارا علاقہ ایک صحرا کی مانند تھا اس لئے ان کا دور سے ہی پہچانا جانا ایک قدرتی امر تھا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں زمین پر کرالنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ کہیں دشمن کی نظر میں نہ آجائیں ابھی وہ کچھ دور ہی آئے تھے کہ دونوں کو دور سے ایک ہیوی جیپ آتے نظر آئی اور دونوں نے کچھ ریتلی جگہ پر سے ریت ہاتھوں سے نکال کر اپنے چھپنے کی جگہ بنائی اور کچھ ریت انہوں نے اپنے اوپر ڈال کر خود کو چھپا لیا اورگاڑی کی آواز سننے لگے جو لمحہ بہ لمحہ قریب آتے محسوس ہورہی تھی پھر اچانک ان دونوں کے گرد لگاتار گولیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور ایک کرخت سی آواز گونجی۔
خبردار ۔۔۔ ہلنے کی کوشش کی تو بھون دیئے جاؤ گے ۔
اور دونوں یہ دیکھ کر سدھ ہوگئے کہ ان دونوں کو دھر لیا گیا ہے مگر دشمن شائد یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ میجر پرمود ہے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے مات دینے کا ہنر جانتا ہے۔جیسے ہی دشمن لیڈر کی آواز کی گونج ختم ہوئی اسی لمحے میجر پرمود نے لیٹے لیٹے ہی مشین گن کا دھانہ کھول دیا اور پلک جھپکنے میں پانچوں کے پانچوں فوجی گولیوں سے بھون دیئے گئے تھے اس سے پہلے کہ جیپ کا ڈرائیور سنبھلتا کیپٹن توفیق کی گولی نے اسے بھی عالم ارواح کی جانب بھیج دیا تھا۔اور وہ جلدی سے جیپ میں بیٹھ کر آگے بڑھنے لگے ۔
ایک گھنٹہ کی تیز ڈرائیونگ کےبعد وہ بارڈر کے قریب شہر میں داخل ہونے والے تھے چونکہ وہ فوجی جیپ میں تھے اس لئے راستے میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہوئی جیسے ہی وہ شہر کی داخلی چیک پوسٹ پر پہنچے اس سے قبل کہ چیک پوسٹ والے سنبھلتے میجر پرمود اور کیپٹن توفیق کی مشین گنوں کی گھن گھرج سے فضا گونج اٹھی اس وقت دونوں موت کے فرشتے ثابت ہورہے تھے۔ بظاہر میجر پرمود کے چہرے پر سکون تھا مگر کیپٹن توفیق جانتا تھا کہ میجر پرمود کا خون کھول رہا ہے جب سے اس مشن کی شروعات ہوئی تھیں میجر پرمود خاموش تھا۔
چیک پوسٹ کا صفایا کرکے دونوں جیپ سے اترے چیک پوسٹ کی تلاشی لی جس سے پتہ چلا کہ قریب ہی ایک مین چیک پوسٹ ہے جس سے بلغاریہ کے کمانڈر کی شہادت کا ٹارگٹ آپریٹ کیا گیا تھا ۔
توفیق جلدی ٹرک سٹارٹ کرو ہمیں فوری وہ چیک پوسٹ ہٹ کرنی ہے تاکہ ان کا یہ گمان کہ ہم ان تک نہیں پہنچ سکتے ختم کیا جائے۔ میجر پرمود نے نئی چیک پوسٹ کا علم ہوتے ہی کیپٹن توفیق کو کہا اور خود دوسری طرف سے ٹرک میں بیٹھ گیا اور ٹرک چل پڑا۔
ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ اچانک قریبی موڑ سے چار فوجی گاڑیوں نے انہیں گھیر لیا شائد انہیں ان کی اطلاع مل گئی تھی مگر اس سے پہلے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی فائرنگ ہوتی میجر پرمود نے اندھا دھند فائرنگ کرنی شروع کردی جس سے اچانک بہت سے دشمن فوجی ہلاک ہوگئے مگر اسی لمحے ان کی طرف سے بھی شدید فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا اور ان دونوں کا ٹرک میں رہنا اب سوائے موت کے کوئی چارہ نہ تھا کہ دشمن فوج کی پیٹھ سے دشمن فوج پر بھی حملہ کردیا گیا جس سے دشمن فوج اب نرغے میں آچکی تھی اور کیپٹن توفیق حیران بھی تھا کہ یہ اچانک کمک کیسے آگئی جس سے ان کی جان بچی ۔ اور میجر پرمود نے انہیں لمحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو ٹرک سے کچھ ایسے انداز میں نکالا کہ اس کے نکلتے ایک لمحے کے لئے دروازہ کھلا اور اسی لمحے وہ ٹرک کے نیچے سے ہوتا ہوا ٹرک کی عقبی طرف پہنچ گیا جبکہ کیپٹن توفیق بھی اسی انداز میں موت کے منہ سے بظاہر نکل آیا تھا جبکہ فائرنگ کا تبادلہ اب لگ بھگ تھم چکا تھا۔
جیسے ہی میجر پرمود نے ہلکا سا سر نکال کر باہر کی جانب دیکھا تو حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ اس کے ہمسائے دوست ملک کے مجاہد لیڈر سنت اللہ آگے بڑھ رہے تھے جس سے یہ کنفرم تھا کہ دشمن اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔ سنت اللہ صاحب ۔۔۔میجر پرمود نے ٹرک کی اوڑھ سے نکل کر اونچی آواز میں گرم جوشی سے کہا اور آگے بڑھ کر مجاہد لیڈر کے گلے لگ گیا اور سنت اللہ نے بھی میجر پرمود کو گلے لگاتے ہی مسکراہٹ کا اظہار کیا۔
خدا کا شکر ہے کہ آپ ان ظالموں کے نرغے سے بچ گئے ہیں ہمیں اطلاع مل چکی تھی کہ آپ ہمارے ملک میں داخل ہوچکے ہیں اور آپ کا ٹارگٹ ایکریمیا کی وہ تمام چیک پوسٹ ہیں جس سے آپ کے ملک کو شدید خطرہ اور مسلم دنیا کے لئے مشکلات ہوسکتی ہیں اس لئے ہم نے اپنے طور پر تمام معلومات بھی حاصل کرلی ہیں اور آپ کی حفاظت کا سامان بھی مکمل کرچکے تھے۔ سنت اللہ نے میجر پرمود اور کیپٹن توفیق سے ملنے کے بعد تمام تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
اچھا بہت اعلیٰ جناب یہ تو آپ کی ذرہ نوازی ہے وگرنہ موت تو خدا کے حکم سے آنی ہے ان ایکریمی فوجیوں کو تو نیست نابود کرکے ہی جاؤں گا۔میجر پرمود نے بھی گاڑی کی طرف چلتے ہوئے کہا۔
ہمیں معلومات ملی ہیں کہ یہاں قریب ہی کوئی مین چیک پوسٹ ہے جس سے اردگرد کی لگ بھگ پنتالیس چیک پوسٹیں کور کی جاتی ہیں اور ایکریمیا کی ایجنسی نے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے بے شمار ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔کیپٹن توفیق نے پہلی بار سنت اللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
بالکل کیپٹن صاحب ایسا ہی ہے مگر اس مین چیک پوسٹ تک جانے کے لئے ایک انتہائی سخت حفاظتی حصار سے گزرنا پڑے گا اس حصار میں بے شمار جگہ جگہ فوجی بکھرے ہیں جن میں کچھ سول ہیں اور کچھ مخصوص لباس میں ۔ سنت اللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا اور اسی دوران وہ اب سب گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوچکے تھے۔
آپ ایسے کریں ہمیں اس حصار کے قریب پہنچا دیں باقی ہم سب خود دیکھ لیں گے ان کو جتنا وقت ہم دیں گے ہمارے لئے نقصان دہ ہوگا۔ میجر پرمود نے کہا۔جس پر سنت اللہ نے سر ہلا کر جواب دینے میں ہی عافیت سمجھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میجر پرمود جب کوئی فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر جب تک وہ پورا نہ ہوجائے سب بے کار ہوتا ہے۔
چند لمحوں بعد ان کی گاڑیاں رکی اور ان کو بتایا گیا کہ یہاں قریب ہی ایک مجاہدین کی ایک حویلی ہے آپ وہاں چلے جائیں اس کے قریب ہی سے وہ حصار شروع ہوجاتا ہے اور وہ دونوں اتر کر اس حویلی کی جانب چل پڑے وہاں پہنچ کر حویلی کی سامنے والی ایک نو تعمیر بلڈنگ میں داخل ہوگئے سب سے اوپر والی منزل پر جاکر میجر پرمود نے دوربین سے صورت حال کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ بجائے اس حویلی میں جانے کے یہیں سے وہ حصار توڑا جائے اور پھر دونوں نے اپنے اپنے بیگ اتارے اور مختلف قسم کے آٹو میٹک راکٹ لانچرز کے حصوں کو جوڑنا شروع کردیا اور ان کی مکمل سیٹنگ مکمل کرکے اس میں راکٹ لوڈ کئے اور یکے بعد دیگرے داغنے شروع کردیئے اور اتنی تیزی سے دونوں اپنا کام کررہے تھے کہ چند لمحوں میں ہی کئی راکٹ فائر کرکے دونوں بھاگ کر بلڈنگ سے نکل کر آگے بڑھنے لگے جبکہ اب جگہ جگہ فوجیوں کے کٹے پھٹے اعضاء بکھرے پڑے تھے اور جگہ جگہ انسانی خون نظر آرہا تھا اور کچھ ہی لمحوں میں ایمبولینسز کے سائرن گونج اٹھے اور انہیں قسم کے شور شرابے میں وہ دونوں مین چیک پوسٹ کے دروازے تک پہنچ گئے کہ اچانک ایک طرف سے گولی چلی اور کیپٹن توفیق کی درد ناک چیخ کی آواز ابھری اور پرمود نے یکلخت ہی چیک پوسٹ کی طرف دوڑ لگا دی اور دوڑتے ہوئے مشین گن سے فائرنگ بھی کرتا جارہا تھا اس پر بھی فائرنگ ہورہی تھی مگر وہ چونکہ زگ زیگ کے انداز میں اور بجلی کی سی تیزی سے بھاگ رہا تھا اس لئے ابھی تک کوئی گولی اس تک نہیں پہنچی تھی کہ وہ ایک عمارت میں داخل ہوگیا جس میں مختلف قسم کی مشینیں لگی تھیں جس سے معلوم ہورہا تھا کہ یہ ایک جدید چیک پوسٹ ہے اور اس سے بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں پرمود نے مشینوں پر موجود تمام آپریٹرز کو ختم کردیا تھا اور خود ایک تہہ خانے میں گھس گیا جہاں بڑے بڑے کمپیوٹر نصب تھے اور ان کے ساتھ راکٹ اٹیچ کئے ہوئے تھے اور جب میجر پرمود نے ان راکٹوں کے ٹارگٹ چیک کئے تو کھول کر رہ گیا کیونکہ ان تمام کے ٹارگٹ اس کے ملک کی چند اہم فوجی تنصیبات تھیں اور پھر کچھ دیر کی محنت کے بعد اور مختلف کمپیوٹرز آپریٹ کرنے کے بعد اس نے ایک ریڈ کلر کا ایک بٹن دبا دیا اور اب اس کے چہرے پر سکون کے اثرات تھے۔
پھر جیب سے ایک ٹائم بم نکال کر تہہ خانے میں لگایا اور خود وہاں سے باہر نکل آیا تو باہر ایک اوٹ میں کیپٹن توفیق زندگی کی آخری کشمش میں تھا اس کو کندھوں پر اٹھایا اور چیک پوسٹ سے نکلتا چلا گیا۔
ٹرانسمیڑ سے ایک فارن ایجنٹ کو کال کرکے اپنی صورت حال بتائی جس پر قریبی ایک گھر کا بتایا جہاں کیپٹن توفیق کو ایک نئی زندگی ملی اور اسی لمحے دنیا کے تمام نیوز چینلز نے ایکریمیا کی تیس سے زائد چیک پوسٹس کی تباہی کی خبر دینی شروع کردی جسے سن کر میجر پرمود کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تیرنے لگی کیونکہ اسی نے تہہ خانے سے تمام راکٹ ان چیک پوسٹوں پر سیٹ کرکے آپریٹ کردیئے تھے۔
ختم شد
0 Comments
Thanks for your feedback.