وہ ہسپتال میں بیٹھی بہت تیزی
سے کسی کے لئے میسیج ٹائپ کرتی چلی جارہی تھی انتہائی خوبصورت چہرہ مگر ایک عدد چونچ
سی ناک نے اس کے سارے حسن کو نظر بد سے بچا رکھا تھا، کہنے کو تو حسن بہت مغرور ہوتا
ہے مگر وہ حسن ہی کیا جو کسی کا محتاج نہ ہو۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی اپنے کو دل جمعی
سے کوئی محبت بھرا پیغام بھیج رہی ہو مگر جن کے ماں باپ یہ سوچ کر اپنی لڑکیوں کو انہی
کے بھروسے پر اکیلا کہیں جانے کی اجازت دے دیں تو ان کا بھروسہ پھر خدا کی منشاء کے
مطابق کم اور معاشرے کے تھپیڑوں کی لپیٹ میں زیادہ ہوتا ہے۔
ابھی کچھ دیر ہی گزری ہوگی
کہ اچانک ایک انتہائی خوبصورت اور ہینڈسم نوجوان اس کے قریب آکھڑا ہوا اس کا انداز
بتا رہا تھا کہ وہ شائد کوئی چوری کرنے آیا ہے چوری تو وہ کررہا تھا مگر اپنے باپ کی
عزت کو۔ خیر دکھانا چاہتا تھا کہ وہ بھی اپنا علاج کرانے آیا ہے مگر ایک آدھ اشارے
کے بعد گویا اس نوجوان کو طلسماتی میڈیسن مل گئی ہو اور وہ ہسپتال کے مخصوص ایریئے
سے باہر نکلتا چلا گیا اور اس کے تعاقب میں وہ لڑکی جسے مریض کم اور طوائف زیادہ کہنا
چاہیے بھی اس کے پیچھے ہو لی۔ ممکن ہے کہ وہ واپس گھر لوٹ گئی ہو مگر ایک اجنبی کے
اشارے پر اٹھ کر جانا گزرے ہوئے نیک نیتی کے خیال کو مسلسل جھنجھوڑ رہے تھے۔
مگر ہم معاشرے کے جزو ہوتے
ہوئے بھی کچھ نہ کرپائے کیونکہ یہاں ہر مرد عورت کا حمایتی، عاشق، جھوٹا جانثار مل
جاتا ہے مگر عورت کو نیک نیتی سے ماں بہن کہنے والا نہیں ملتا اگر مل جائے تو شائد
ایسے مرد کو عورت تو مل جائے گی مگر ۔۔۔
1 Comments
Good story
ReplyDeleteThanks for your feedback.