بندر کی شادی
افر یقہ کے گھنے جنگلوں میں ایک جگہ بندروں کا ایک بہت بڑا قبیلہ رہتا تھا۔ ان بندروں میں ایک بندربا لکل سفید تھا اور ایک با لکل سیاہ رنگ کا تھا۔ یہ دونوں بندر قبیلے کے دوسرے بندروںسے بہت مختلف تھے اور کئی ایک با توں میں بہت مشہور تھے۔سفید بندر اپنی سفید رنگت ، عقلمندی اور بہادری کی وجہ سے بہت شہرت رکھتا تھا۔ سیاہ بندر اپنے بڑے قدوقا مت، موٹی موٹی آنکھوں ، تیز نظر اور چا لاکی کی وجہ سے مشہور تھا۔
بندروں کا سردار مر گیا تو قبیلے کے تمام بندروں نے چا ہا کہ دفید بندر کو قبیلے کا سردار بنایا جا ئے۔ قبیلے کی سب سے خو بصورت بندریا " خیلو" بھی یہی چا ہتی تھی کہ سفید بندر قبیلے کا سردار بنے کیونکہ وہ اس کی عقلمندی اور بہادری کی اسے وجہ سے بے حد پسند کرتی تھی۔سیاہ بندر نے اپنی چا لاکی سے کچھ بندروں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ وہ چا ہتے تھے کہ سیاہ بندرسردار بنے ۔آخر فیصلہ ہوا کہ سرداری کے لئے سفید بندر اور سیاہ بندر میں مقا بلہ ہو نا چائیے جو جیتے گا وہی سردار بنے گا۔
تمام بندر ایک جگہ جمع ہو گئے ۔ سفید بندر اور سیاہ بندر میں مقا بلہ شروع ہوا۔ پہلا مقا بلہ ایک درخت سے دوسرے درخت پر تیزی سے چھلانگیں لگا نے کا تھا۔سیا ہ بندر اپنے بھاری بھر کم جسم کی وجہ سے یہ مقا بلہ ہا ر گیا اس کے بر عکس سفید بندر بہت چست تھا اس لئے وہ جیت گیا۔دوسرا مقا بلہ لمبی دوڑ کا تھا اس میں بھی سفید بندر نے سیا ہ بندر کو شکست دے سدی۔ تیسرا مقا بلہ ایک ٹا نگ پر چلنے کا تھا۔ یہ مقا بلہ بڑا دلچسپ تھا۔ دونوں بندر اپنی ایک ایک ٹا نگ پر جھولتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ سیاہ بندر بہت موٹا ہو نے کی وجہ سے کئی با ر گرا ۔ لیکن سفید بندر اچھل اچھل کر اس سے بہت دور نکل گیا ۔ چو تھا اور آخری مقا بلہ کشتی کا تھا یہ مقا بلہ بہت سخت اور خطر ناک تھا۔ اس میں سفید بندر کو بہت دقت کا سا منا کر نا پڑا۔ کیو نکہ سیاہ بندر ، سفید بندر سے کہیں زیادہ طا قتور تھا اور وہ اپنی ہلی شکستوں کا بدلہ بھی لینا چا ہتا تھا۔ اس لئے وہ اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔ وہ اچھل اچھل کر اور غرا غرا کر حملے کر رہا تھا اور چا ہتا تھا کہ سفید بندر کو جان سے مار ڈالے ۔
سفید بندر کا فی زخمی ہو گیا لیکن وہ ہا ر ما ننے والا نہ تھا۔ ایک بار جب سفید بندر حملہ کر نے کے لئے اچھلا اور چاہتا تھا کہ اپنے بڑے بڑے نا خنوں والے پنجوں سے سفید بندر کی آنکھیں زخمی کر دے۔ سفید بندر نے شدید زخمی ہو نے کے با وجود بڑی چستی سے اس کا یہ وار خا لی دیا اور ایک طرف کو ہٹ گیا ۔ غصے میں بھرے ہوئے سیاہ بندر نے فوراً دوبارہ حملہ کیا ۔ اس بار بھی سفید بندر نے بڑی چستی دکھائی اور قریب کے ایک درخت پر چھلانگ لگا کر اس کی ایک شاخ کو پکڑ لیا۔ سیاہ بندر اپنے ہی زور میں درخت کے تنے سے جا ٹکرایا اور اس کے سر پر بہت سخت چوٹ آئی جس کی وجہ سے اس کے سر سے خون ابل پڑا اور وہ بے جان ہو کر گر پڑا اس کا چہرہ خون اور زخموں کی وجہ سے بہت ڈراؤنا ہو گیا تھا۔ چار موٹے تازے بندر اسے اٹھا کر دریا کے کنارے پھینک آئے۔ سارے قبیلے کے بندر سفید بندر کی جیت پر خوش ہوئے۔
انہوں نے اسے اپنا سردار بنا لیا ۔ خو بصورت بندریا " خیلو"بھی بے حد خوش تھی۔ اس نے سفید بندر کے پاس آکر اسے مبارک باد دی۔سفید بندر نے اس کا شکریہ ادا کیا۔سفید بندر کو خیلو بندریا بہت پسند تھی ۔ وہ تھی بھی بے حد حسین ۔ اس کا رنگ کا لا اور بھورا تھا۔ کان چھوٹے چھوٹے ، دم لمبی اور بال ریشم کی طرح ملائم تھے۔ آواز بہت ہی اچھی اور سریلی تھی۔ سارے قبیلے کے بندر اسے رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ سفید بندر کے سردار بننے پر سارے قبیلے کے بندر بہت خوش تھے کیونکہ وہ جا نتے تھے کہ جب بھی کوئی برا وقت آیا تو سفید بندر اپنی عقلمندی اور بہادری سے اس مصیبت کو ختم کر دے گا۔ بندروں کا مو جودہ سردار جہاں اتنا بہادر اور عقلمند تھا وہا ں رحمدلی اور بڑا خوش مزاج بھی تھا۔ اکثر وہ کسی درخت کی ٹہنی سے اپنی پچھلی ٹانگوں کے سہا رے لٹک جا تا اور چھوٹے چھوٹے ننھے منے بندروں کو عجیب و غریب کر تب دکھا کر خوب ہنساتا اور خوش رکھتا اور جب وہ اپنی پچھلی ٹا نگوں پر کھڑا ہو کر اپنے ہاتھ پیٹھ پر با ندھ لیتا اور اکڑ اکڑ کر چلتا تو تمام بندر ہنس ہنس کر لوٹ پو ٹ ہو جاتے ۔ اسی وجہ سے چھوٹے بڑے سب بندر اس کی بڑی عزت کرتے تھے اور سفید بندر کے اس کا رنامے پر سب بہت خوش تھے۔ اس خو شی میں قبیلے کے چند بو ڑھے بندر خیلو بندریا کے گھر گئے اور سفید بندر سے اس کی شادی کے لئے بات کی ۔ قبیلے میں سفید بندر سے زیادہ بہادر اور کوئی نہیں تھا ا س کے علا وہوہ قبیلے کا سردار بھی تھا اس لئے خیلو بندریا کے گھر والوں نے یہ شا دی فو راً منظور کر لی۔
تقریباً ایک ہفتے بعد جب مو سم بہت خوشگوار تھا۔ سفید بندر دولہا بنا بیٹھا تھا اور اس جگہ کو جہاں بندروں کا قبیلہ رہتا تھا پودوں اور پھولوں سے خوب سجا یا گیا تھا۔ ارد گرد درخت ہی درخت تھے۔ تمام بندر چو نکہ اپنے سردارسفید بندر کی شادی کی خو شیوں کو دو بالا کرنا چا ہتے تھے اس لئے وہ دور دراز کے علا قوں سے رنگ بر نگے پھول ، بیلیں ، پتے اور کئی قسم کے پھل توڑ کر لائے تھے اور انہیں چا روں طرف درختوں کی شاخوں سے لٹکا دیا گیا تھا۔ سفید بندر کے سر پر پھولوں کا ایک گلدستہ رکھا ہوا تھا ۔ جیسے تاج ہو اور پھولوں کی لڑیاں چہرے کے دائیں با ئیں سہرے کی طرح لٹکی ہوئی تھیں ۔ سفید بندر اس وقت ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے سا رے جنگل کا شہنشاہ ہو۔ اس کے جسم کے بال بھی خوب چمک رہے تھے مگر دولہا بننے کی وجہ سے وہ شر مایا شرمایا سا تھا ۔ادھر خیلو بندریا اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ دور ایک بڑے درخت کی اوٹ میں دلہن بنی بیٹھی تھی۔ اس کے گلے میں پھولوں کی بنی ہوئی با لیاں تھیں اور بہت سے چھوٹے چھوٹے بندروں نے اس کے گرد حلقہ بنا رکھا تھا۔بندروں کی ان تمام با توں سے ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے وہ کافی سمجھ رکھتے ہیں ۔ ویسے بھی بندر دوسرے جا نوروں کی نسبت زیا دہ عقلمند جا نور ہے ۔تین چار بندر نہ جا نے کہاں سے سو کھے درخت کا ایک کھو کھلا تنا اٹھا لائے تھے اور اب اسے چھڑیوں سے ڈھول کی طرح پیٹ پیٹکر بجا رہے تھے۔ خوب شادی کا جشن تھا۔ جب بارات خیلو بندریا والوں کی طرف روانہ ہونے لگی تو خو بصورت اورصحت مند بندروں نے نا چنا شروع کر دیا ۔ وہ کبھی دائیں سے با ئیں اور کبھی با ئیں سے دائیں گھومتے اور چکر لگاتے تھے ۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر تو کوئی بھی اپنی ہنسی نہیں روک سکتا تھا اور جب وہ قلا با زیاں لگا کر دھم سے نیچے گرتے تو سب خوشی سے چلانے لگتے تھے۔اچا نک ان دو بندروں نے نا چنا بند کر دیا اور عجیب و غریب کر تب دکھا نے لگے۔ ایک بندر اپنی پچھلی ٹا نگوں پر کھڑا ہو گیا اور دوسرا بندر اس کے ہا تھو ں کو پکڑ کر اچھلا اور اس کے سر سے سر ملا کر ٹا نگیں اوپر کئے سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سر کس کا تماشا ہو رہا ہو۔ یہ دیک کر چھوٹے چھوٹے بندر کھی کھی کرنے لگے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی ایک اور کرتب دکھائے اور پھر دوبارہ نا چنے لگے ۔ اب ان کے منہ سے "خی خو" "خی خو" کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ جیسے نا چنے کے ساتھ ساتھ وہ گا نا بھی گا رہے ہوں ۔
دوسرے بندروں کو ان کی خی خو ایسی بھائی کہ وہ بھی اس میں شامل ہو گئے ۔ اب تو ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے کو ئی ہنگا مہ ہو رہا ہو ۔ سب نا چ رہے تھے اور سب گا رہے تھے۔ خوشی کے اس شوروغل کے کافی دیر بعد سفید بندر کی با رات بڑی شان و شوکت سے خیلو بندریا کے گھر کی جانب روانہ ہوئی ۔ اس وقت بھی چھوٹے بڑے سب بندر کچھ اس قسم کی عجیب و غریب حر کتیں کررہے تھے کہ دیکھنے والوں کے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جا ئیں ۔ ایک بہت ہی شریر بندر نے اپنے آگے جانے والے دو بندروں کی دموں کو پکڑ کر بڑی پھرتی سے اور چا لاکی سے گرہ دے دی۔ اس طرح وہ دونوں بندر جن کی دمیں ایک دوسرے سے بندھی ہوئی تھیں بے خبری میں جلدی سے آگے بڑھے تو دھڑام سے نیچے آ رہے جسے دیکھ کر دوسرے تمام کھی کھی اور ہی ہی کر نے لگے اور کئی ایک تو ہنستے ہنستے لو ٹ پوٹ ہوگئے تھے۔ سفید بندر کی بارات میں سبھی ہنستے گا تے شرارتیں کرتے خیلو بندریا کے گھر پہنچ گئے۔ خیلو بندریا کا گھر ایک بہت بڑے اور گھنے درخت پر تھا۔ اس لئے تمام باراتیوں کے بیٹھنے کے لئے کافی جگہ تھی۔ یہاں مہمان داری کے طور پرخیلو یعنی دلہن کے گھر والوں کی طرف سے سب با را تیوں کو ایک ایک گچھا انگوروں کا دیا گیا ۔ ایک شر یر بندر نے کیا کیا کہ ایک بوڑھی بندریا کے ہا تھ پر جھپٹا مار کر انگورون کا گچھا ارا لے گیا اور پھر سامنے بیٹھ کر ایک ایک دانہ کر کے ا س کے سب انگور چند لمحوں میں چٹ کر گیا ۔ اس کے بعد کچھ اس انداز سے دانت نکال دئے جسے دیکھ کر بوڑھی بندریا کو اس پر غصے کے با وجود ہنسے آگئی۔ تمام بندر سفید بندر یعنی اپنے سردار کی شادی میں کچھ اس طرح مست تھے کہ انہیں یہ خبر ہی نہ ہوئی کہ وہ موٹی موٹی آنکھوں والا ایک ڈراونا سیاہ چہرہ مسلسل ان کا تعا قب کرتا ہوا یہاں تک آیا تھا۔ سفید بندر کو خیلو بندریا کے ساتھ بٹھا دیا گیا ۔ دونوں سر جھکا ئے بیٹھے تھے ۔ قبیلے کے سب سے بوڑھے بندر نے ایک پھولوں کی چھڑی سفید بندر اور خیلو بندریا کے سر پر کئے بار پھیری اور ساتھ ہی کھوکھلے تنے والا ڈھول بجا یا گیا۔ اس وقت صرف ڈھول کی آواز آرہی تھی باقی سب خا موش تھے ۔
اس کے بعد پھولوں بھری ایک بہت ہی نرم ، پتلی اور سبز رنگ کی ایک بیل لا ئی گئی ۔ اس بیل سے دولہا یعنی سفید بندر کے با ئیں ہا تھ اور دلہن خیلو بندریا کے دائیں ہا تھ کواکٹھا با ندھنا تھا ۔ یہ شادی کی آخری رسم ادا کرنا ہی چا ہتا تھا کہ بڑی بڑی آنکھوں والا وہ ڈراؤنا چہرہ جو کا فی دیر سے در ختوں میں چھپا سب کچھ دیکھ رہا تھا درخت سے کودا اور ٹھیک سفید بندر کے اوپر آگرا یہ وہی یاہ بندر تھا جس سے مقا بلہ جیت کر سفید بندر قبیلے کا سردار بنا تھا ۔ ڈھول کی آواز بند ہو گئی شادی کا سارا جشن درہم بر ہم ہو گیا ۔سیاہ بندر کو دیکھ کر کئی بندروں کی تو چیخیں نکل گئیں اور چھو ٹے چھوٹے بندر تو ڈر کے مارے بھاگ کر درختوں کی اونچی اونچی ڈالیوں پر جا بیٹھے۔
سیاہ بندر ، سفید بندر سے مقابلے کے وقت دراصل مرا نہیں تھا بلکہ بے ہوش ہو گیا تھا اور بندر اسے مردہ سمجھ کر دریا کے کنارے پھینک آئے تھے۔ سفید بندر سے بدلہ لینے کے لئے سیاہ بندر اس وقت تک جنگل کے دوسرے حصے میں چھپا رہا جب تک اس کے زخم ٹھیک نہیں ہو گئے۔ آج سفید بندر کی شادی کے موقع پر اسے سفید بندر سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا تھا۔ سیا ہ بندر نے درخت سے کودتے ہی اپنے تیز نا خنوں والا ایک پنجہ سفید بندر کو مارا اور دوسرے ہاتھ سے خیلو بندریا کو بازو سے پکڑ کر قریب کے ایک درخت پر چھلانگ لگا دی۔یہ دیکھ کر سفید بندر اس کے پیچھے لپکا۔ خیلو بندریا چلا رہی تھی۔دوسرے بندروں نے جب سفید بندر کو سیاہ بندر کے پیچھے جا تے دیکھا تو وہ بھی اپنے سردار کی مدد کے لئے تیزی سے آگے بڑھے اور یاہ بندر کو اس بات کا موقع ہی نہ دیا کہ وہ وہاں سے بھا گنے میں کا میاب ہو ۔ سب نے مل کر اسے گھیر لیا۔سفید بندر نے بڑی پھرتی دکھائی اور بڑھ کر سیاہ بندر کی ٹانگ کھینچ لی جس کی وجہ سے خیلو بندریا اس کی گر فت سے آزاد ہو کر درخت پر چڑھ گئی اور سیاہ بندر دھرام سے نیچے آگرا اس کے گرتے ہی تمام بندروں نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہو گیا اور نیچے گر کر اکھڑی اکھڑی سی سا نسیں لینے لگا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی مر ہی جائے گا۔ یہ حالت دیکھ کر سفید بندر نے دوسرے بندروں کو اسے مزید مارنے سے روکا اور کہا جب خدا نے پہلے اسے مرنے سے بچا لیا ہے تو ان بھی زندہ رہنے دو ۔ سفید بندر کی رحمدلی نے سیاہ بندر کے دل پر گہرا اثر کیا اور اس نے سفید بندر سے معا فی مانگی اور اسے اپنا سردار مان لیا۔اس کے فوراً بعد پھر شادی کا ڈھول بجایا جانے لگا اب تو تمام بندر اور بھی زیادہ خوشی منارہے تھے۔سیاہ بندر زخمی ہو نے کے باوجود سفید بندر کی شادی پر بہت خوش ہو رہا تھا۔ قبیلے کے سب سے بوڑھے بندر نے سفید بندر اور خیلو کے ہاتھوں میں پھولوں کی بیل با ندھی ۔ اس طرح بندروں کے قبیلے کے سردار سفید بندر اور قبیلے کی سب سے خو بصورت بندریا خیلو کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہو گئی سفید بندر جب وہاں سے اپنی بیوی خیلو کو لے کر واپسی کے لئے چلا تو درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا ایک بہت ہی ننھا منا اور پیارا پیارا سا بندر ان پھولوں پتیاں نچھاور کر رہا تھا۔
ختم شد
0 Comments
Thanks for your feedback.