مصنف: دانش احمد شہزاد
ٹارزن کی عادت تھی کہ ہرروز صبح سویرے سمندر کنارے جاکر غسل کیا کرتا تھا تاکہ سارا دن چاق و چوبند گزرے اسی لئے حسبِ معمول آج بھی ٹارزن سمندر کنارے غسل کررہا تھا چونکہ موسم میں آج گرمی کی شدت صبح سے ہی شروع ہوچکی تھی اس لئے وہ تیرتے تیرتے ساحل سمندر سے کافی دور نکل آیا تھاکہ اچانک اسے سامنے سے ایک کشتی آتی ہوئی نظر آئی جس کو دیکھ کر وہ کافی حیران ہوا کہ اتنی صبح سویرے اس کشتی میں اس کے جنگل کی طرف کون آرہا ہے۔ پھر یہ سوچ کر مطمئن سا ہوگیا کہ ہوسکتا ہے کوئی راستہ بھٹک گیا ہو کیونکہ اکثر مہذب دنیا کے لوگ اس طرف آتے اور راستہ بھٹک جاتے تھے۔اسی خیال کو تقویت دیتے ہوئے وہ کشتی کی طرف تیرنے لگا ۔
کچھ دیر بعد جب ٹارزن کشتی کے قریب پہنچا تو اچانک کشتی کے دونوں اطراف سے دو، دو آدمیوں نے سمندر میں چھلانگیں لگا دیں۔اور تیرتے ہوئے ٹارزن کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے پہلے تو ٹارزن ان کو اس طرح سمندر میں کودتے دیکھ کر چونکا مگر پھر اس نے ان کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ شائد سمندری ڈاکو ہونگے مگر اتنے میں چاروں نے ٹارزن کو گھیر لیا اور اس کو کشتی کی طرف چلنے کا اشارہ کیا۔
ٹارزن چاہتا تو انہیں یہیں پر ختم کرسکتا تھا آخر وہ کوئی معمولی انسان نہیں تھا بلکہ اب تک وہ کئی معرکے اپنی بہادری اور ذہانت سے جیت چکا تھا۔کئی راہزنوں اور ڈاکوؤں سے نبرد آزما ہوکر کامیاب ہوچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹارزن نے بجائے ان چاروں کو ختم کرنے کے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے ملنا زیادہ مناسب سمجھا۔
وہ چاروں یہ سمجھ رہے تھے کہ شائد انہوں نے ایک نیا شکار پھانس لیا ہے جو شائد ان کے ڈر کی وجہ سے ایک ہی اشارے پر کشتی پر چڑھنے لگا۔ابھی ٹارزن کشتی پر چڑھا ہی تھا کہ کشتی کہ کیبن سے مزید چار آدمیوں نے اچانک نکل کر ٹارزن کو پکڑ لیا اور رسیوں سے اسے باندھنے لگے مگر اب ٹارزن ایسا کیسے ہونے دیتا اس نے اچانک سائیڈ پر موجود آدمی کے کہنی ماری اور اسی لمحے اس نے اپنی ٹانگ دائرے میں چلادی جس سے مزید دو آدمی اس کی ٹانگ کی ضرب کھا کرگر پڑے اتنے میں جو چار تیراک اسے گھیر کر کشتی پر لائے تھے وہ بھی اوپر آچکے تھے اور اب ٹارزن ان سب کے گھیرے میں تھا۔
خبردار۔ کسی نے ایک بھی حرکت کی ۔۔۔ تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو۔۔۔؟ ٹارزن نے سخت لہجے میں کہا ۔ مگر ابھی اس کا فقرہ ختم ہی ہوا تھا کہ اچانک ایک خنجر ٹارزن کی طرف لپکا اگر سامنے والے کی آنکھوں کا اشارہ وہ نہ دیکھتا تو پیچھے سے آنے والا خنجر اس کی کمر میں دھنس چکا ہوتا مگر وہ ٹارزن تھا اپنے جنگل کا بے تاج بادشاہ اس نے پلک جھپکنے میں خود کو گھمایا اور خنجر کو دبوچ لیا اس سے پہلے کہ کوئی سمجھتا وہی خنجر ٹارزن نے اپنے سامنے کھڑے آدمی کے دل میں اتار دیا جس نے آنکھ سے اشارہ کیا تھا۔
ادھر ٹارزن کو گھومتا دیکھ کر باقی سب نے ٹارزن پر چھلانگیں لگادیں مگر ٹارزن انتہائی پھرتی سے گھوما خنجر کا وار کرتے ہوئے جھکائی دے کر کشتی کے ایک طرف جاکھڑا ہوا اب اس نے ان سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا جبکہ اس سے قبل وہ چاہتا تھا کہ خواہ مخواہ کوئی انسانی جان ضائع نہ ہومگر یہاں تو سب اس کے جانی دشمن معلوم ہوتے تھے سب نے اپنے ایک ساتھی کو ٹاارزن کے ہاتھوں مرتے دیکھا تو مزید غیض و غضب دکھانے لگےوہ سب اب ٹارزن پر اپنے خنجر نکال کر حملہ کررہے تھے اور ٹارزن نہ صرف خود کو ان سے بچا رہا تھا بلکہ موقع دیکھتے ہی کسی نہ کسی کو موت کے منہ میں بھی دھکیلتا جارہا تھا۔
اچانک دو آدمیوں نے پیچھے سے حملہ کرکے ٹارزن کو مضبوطی سے پکڑ لیا باقی سب بھی انتہائی تیزی سے ٹارزن پر حملہ آور ہوئے کہ ٹارزن کو خود کو بچانے کا موقع ہی نہ ملا اور سب سے ٹارزن کو مضبوطی سے جکڑ لیا اس سے قبل کہ کسی کا خنجر ٹارزن کو زخمی کرتا ٹارزن نے ٹانگ چلادی اور سامنے والے کی رانوں کے درمیان نازک حصے پر اتنی زور دار ضرب لگی کہ وہ وہیں چیختا ہوا ڈھیر ہوگیا اور بس یہی لمحہ ٹارزن کے کافی تھا اس کی دونوں بازوؤں نے حرکت کی اور سائیڈوں والے دو آدمی ٹارزن کی بازوؤں میں آگئے اس کے ساتھ ہی وہ گھوما اور بازوؤں والے آدمیوں کو ساتھ لے کر گھوما کر پرے پھینک دیا اب تک ٹارزن ان کے دو ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا تھااور ایک کشتی پر پڑا درد سے چیختا چلا رہا تھا۔باقی پانچ ابھی بھی ٹارزن پر حملہ آور ہونے کو پر تول رہے تھے۔
اتنے میں اچانک کشتی ڈگمگائی جس سے سب اپنا توازن کھو بیٹھے اور اسی لمحے کا فائدہ ٹارزن نے اٹھایا اور ان پر حملہ کردیا مگر کشتی کے ڈگمگانے سے ایک خنجر ایک آدمی کے ہاتھ لگ گیا جو اس نے ٹارزن پر کھینچ مارا۔ اور وہ خنجر ٹارزن کی کمر کے دائیں طرف نیچے کو لگا ٹارزن کو ایک جھٹکا لگا مگر اس دوران وہ ایک آدمی کو پکڑ چکا تھا اور اب اس کا ٹارزن کے پنجے سے نکلنا ناممکن تھا پھر اچانک ٹارزن نے اپنی کمر سے خنجر ایک جھٹکے سے نکالا اور درد کی ایک شدید لہر اس کے سارے جسم میں پھیل گئی مگر وہ ٹارزن ہی کیا جو ان معمولی دردوں کے آگے ہار جائے اس نے اسی خنجر سے اس آدمی کی گردن کاٹ دی اس کے باقی ساتھیوں نے ٹارزن کو جکڑنا چاہا مگر اب زخمی ٹارزن کسی بھوکے شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑا جس کو بھی اس کا ہاتھ پڑتا وہ دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ رہتا۔
ایک خوفناک لڑائی میں بالآخر ٹارزن نے سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اسی اثناء میں ایک چیخ کی آواز سنائی دی جو کشتی کے کیبن سے آئی تھی ۔ جسے سن کر ٹارزن کشتی کے کیبن کی طرف لپکا اور وہ دروازہ کھولتے ہی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں انسانی ہڈیوں کے ساتھ ساتھ کچھ انسانی جسموں کے ڈھانچے بھی پڑے تھے۔اور کیبن سے انسانی جسم کی عجیب سی سرانڈ محسوس ہورہی تھی اور ایک سائیڈ پر تین آدمی رسیوں سے بندھے ہوئے تھےان کے چہروں سے ڈر واضح نظر آرہا تھا۔
ٹارزن کو زخمی حالت میں دیکھ کر وہ اور زیادہ ڈر گئے اور سہم سے گئے ٹارزن نے ان کی حالت کو فوری بھانپتے ہوئے ان کو تسلی دی اور ان کو رسیوں سے آزاد کردیا پھر ان سے سارا ماجرا سننے پر یقین ہوگیا کہ یہ سمندری آدم خور تھے۔ سمندر میں یہ اپنا شکار تلاش کرتے اور جو ان کے پنجے میں آجاتا زندہ بچ کر نہیں جاسکتا تھا۔ اور ان تینوں کے دو ساتھیوں کو وہ رات بھون کر کھا چکے تھے۔
اپنی زندگیاں بچ جانے پر انہوں نے ٹارزن کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور ٹارزن ان کو ساتھ لے کر اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا وہ خوش تھا کہ انسانیت سے گرے ہوؤں کو اس نے ٹھکانے لگا دیا۔
0 Comments
Thanks for your feedback.