آپ بھی کہانی تخلیق کریں اور جیتیں ہزاروں کے نقد انعامات

Tarzan Or Kartaee Makhlooq by Danish Ahmad Shahzad - Digital Kahani


ٹارزن اور کرٹائی مخلوق

ٹارزن اپنے دوست کے قبیلے میں ایک شادی پر گیا تھا واپسی پر وہ نہانے کے لئے قریبی ساحل پر گیا۔ٹارزن کے ساتھ اس کا دوست منکو بھی تھا ابھی ٹارزن نے پانی میں غوطہ لگایا ہی تھا کہ یک دم کسی چیز نے اس کی ٹانگ پکڑنے کی کوشش کی تھی ٹارزن نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے ایک عجیب و غریب سی چیز جو ٹارزن کو پکڑنے کی کوشش کررہی تھی جس کا جسم کسی ہاتھی جیسا اور شکل کسی کتے سے ملتی تھی اور سر پر تین چھوٹے چھوٹے سینگ تھے اور وہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چلتے تھے۔

ٹارزن جلدی سے پانی سے باہر آگیا اور ساحل کے قریب آم کے درخت پر بیٹھ گیا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کونسی بلا ہے جس نے اس سمندر پر حملہ کردیا ہے ٹارزن ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اسے ٹارزن، ٹارزن کی آواز سنائی دی ۔ ٹارزن نے ایک طرف دیکھا کہ ساحل پر شارک مچھلی زخمی حالت میں پڑی ٹارزن کو آوازیں دے رہی تھی۔

تمہاری یہ حالت کیسے ہوئی ۔۔۔ ٹارزن نے تیز لہجے میں پوچھا۔

ہم۔۔۔ ہمارے سمندر پر کسی عجیب و غریب سی مخلوق نے حملہ کردیا ہے جو شارک اور وہیل کی دشمن ہے۔ شارک نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

میرا ماسک اور آکسیجن سلنڈر لے کر آؤ جلدی۔ ٹارزن نے منکو کو مڑ کر حکم دیتے ہوئے کہا ماسک اور آکسیجن سلنڈر ٹارزن کو اس کے ایک دوست ملرڈان نے بطور تحفہ دیا تھا۔جو کہ ایک جہاز پر سفر کررہا تھا کہ اچانک سیاہ گھنے بادل آگئے پھر ایک بہت بڑا طوفان آیا اور جہاز ڈوب گیا ملرڈان کو ایک تختہ مل گیا وہ اس پر بیٹھ کر دو دن بعد ٹارزن کے جزیرے پر آگیا اور ٹارزن نے ایک بادبانی چھوٹا جہاز بنا کر اس کو روانہ کیا اور پھر چند ماہ بعد وہ ٹارزن کے لئے بہت سے تحفے لایا جس میں دو ماسک اور آکسیجن سلنڈر بھی شامل تھے۔

ایک منکو کے لئے بھی تھا تھوڑی دیر بعد منکو ماسک اور آکسیجن سلنڈر لے کر پہنچ گیا پھر ٹارزن نے پوری تیاری کی اور سمندر میں کود گیا۔ شارک مچھلی ٹارزن کی راہنمائی کررہی تھی وہ سمندر میں کافی گہرائی تک پہنچ گئے ابھی تک کسی نے اُن پر حملہ نہیں کیا تھا شارک مچھلی اسے لے کر عجیب و غریب مخلوق کے مخصوص پناہ گاہ کی طرف لے کر جارہی تھی انہوں نے سمندر میں ایک سرنگ اس طرز سے بنائی تھی کہ اس سرنگ میں پانی داخل نہیں ہوسکتا تھا شارک مچھلی منکو اور ٹارزن کو لے کر اُس جگہ لے گئی جہاں سے سرنگ آگے جاتی تھی

 یہ وہ سرنگ تھی جو انہوں نے تیار کی ہے۔ شارک مچھلی نے کہا۔ٹارزن نے مچھلی کو تسلی دے کر بھیج دیا اور پھر منکو اور ٹارزن نے اپنے ماسک اور آکسیجن سلنڈر اتار کر سرنگ میں داخل ہوگئے۔

تقریبا آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد انہیں سرنگ میں روشنی نظر آئی جو آگے سے سورج کی تھی وہاں پر سرنگ ختم ہوجاتی تھی ۔ ٹارزن نے سرنگ سے باہر نکل کر دیکھا تو یہ ایک جزیرہ تھا جہاں بے شمار سبزہ تھا پھر کچھ دیر چلنے کے بعد منکو اور ٹارزن کو کچھ عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں، منکو اور ٹارزن جلدی سے ایک درخت پر چڑھ گئے جو بہت گھنا تھا۔

ٹارزن کو اُس مخلوق کے چار آدمی اس سرنگ کی جانب جاتے ہوئے نظر آئے جو عجیب سی زبان میں باتیں کررہے تھے وہ سرنگ میں داخل ہوگئے کچھ دیر بعد واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جو شائد کہیں گیا ہوا تھا پھر وہ جہاں سے آئے تھے اسی طرف واپس چلے گئے۔ ٹارزن نے منکو سے کہا کہ وہ ان کے پیچھے جائے اور پتہ کرکے آئے کہ یہ کہاں جاتے ہیں۔ منکو سر ہلاتا ہوا چلاگیا۔جیسے وہ ٹارزن کی بات سمجھ گیا ہو۔کچھ دیر بعدٹارزن کو منکو واپس آتا ہوا نظر آیا۔

سردار، وہ سب ایک جگہ پر بیٹھ کر وہیل مچھلی بھون کر کھا رہے ہیں۔ منکو نے جلدی سے کہا۔

وہ کتنے لوگ تھے ۔ ٹارزن نے منکو سے پوچھا

سردار، وہ تیس سے زیادہ نہیں ہیں ۔ منکو نے سوچتے ہوئے کہا

تو چلو پھر میرے ساتھ آؤ۔ ٹارزن نے درخت سے چھلانگ لگاتے ہوئے منکو سے کہا۔

منکو ٹارزن کو لے کر اُسی جانب چلا گیا جہاں وہ مچھلی بھون کر کھا رہے تھے۔ انہوں نے ٹارزن کو دیکھتے ہی اس کے گرد گھیرا ڈال کر ناچنے لگے۔ان کے منہ سے عجیب سی پھوار نکلتی تھی اگر وہ پھوار کسی جاندار پر پڑ جائے تو وہ جاندار بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اوروہ عجیب سی زبان میں گیت گا رہے تھے۔ جب ٹارزن نے غور سے سنا تو وہ یہ زبان جانتا تھا کیونکہ وہ اس کے ایک دوست کے قبیلہ میں یہ زبان بولی جاتی تھی۔اور ٹارزن اپنے دوست کے قبیلے میں ایک ماہ رہا تھا۔اس لئے ٹارزن ان کی زبان کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا ٹارزن نے ایک بار پھر غور کیا اور وہ گیت سنا جو ٹارزن کو گھیر کر گا رہے تھے تو ٹارزن کو پتہ چلا کہ وہ اپنے کسی دیوتا کو خوش کرنے کے لئے یہ گیت گا رہے تھے۔

تم نے میرے سمندر پر کیوں حملہ کیا ہے؟ ٹارزن سے غرّا کر کہا۔وہ یکدم خاموش ہوگئے اور ان میں سے ایک بوڑھا آگے بڑھا اور کہا۔

تم کون ہو اور یہاں کیسے اور کیوں آئے ہو؟ بوڑھے نے ٹارزن کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس سے ہی سوال کردیا۔

پہلے تم میرے سوال کا جواب دو۔۔۔ ٹارزن نے لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا

ہم نے اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے سمندر پر حملہ کیا کیونکہ ہمارے جسم میں توانائی کم ہوتی جارہی تھی اور یہ کمی پوری کرنے کے لئے وہیل اور شارک مچھلی کو کھا کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے اس لئے ہم نے یہ سرنگ نکال کر سمندر میں حملہ کیا۔ ۔۔بوڑھے نے سرنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تفصیل بتا دی۔

اب تم میرے سوال کا جواب دو۔۔۔بوڑھے نے غصے سے ٹارزن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

میں جنگلوں کا بادشاہ ٹارزن ہوں جس سے مکھنا ہاتھی اور ببر شیر بھی ایسے ڈرتے ہیں جیسے کوا غلیل سےاور اب میری بادشاہت سمندر میں بھی ہے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو عبرت ناک سزا دینے آیا ہوں۔۔۔ ٹارزن نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا

تم کون ہو۔۔۔ ٹارزن نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

یہ تو اب ہم بعد میں بتائیں گے ۔ ۔۔بوڑھے نے غرا کر کہا

شاٹو اس کو بے ہوش کردو۔۔۔ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا۔ اورشاٹو پھوارٹارزن پر گرانے کیلئےآگے بڑھا تھا کہ ٹارز ن نے یکلخت چھلانگ لگا کر شاٹو کے سینے پر ٹانگ ماری اور بوڑھے کی گردن پر ہاتھ مارتا ہوا ایک درخت پر چڑھ گیا۔ شاٹو اور بوڑھے یکدم کھڑے ہوگئے اور انہوں نے باقی آدمیوں کو حکم دیا کہ ٹارزن پر حملہ کردو اور اسکوبیہوش کرکے ہم سردار کے پاس لے کر جائیں گے۔ وہ یقینا ہم سے خوش ہوگا اور ہماری سلامتی کے لئے دیوتا سے دعا بھی کرے گا۔۔۔۔بوڑھے نے خوش ہوتے ہوئے کہا اور ٹارزن پر بےشمار پھواریں پڑنے لگیں اور ٹارزن بیہوش ہوکر درخت سے گر پڑا۔ انہوں نے ٹارزن کورسیوں سے باندھ کر ایک جھونپڑی میں بند کردیااور باہرپانح آدمی پہرے پر بیٹھا دیئے۔

منکو پانی لیکر جھونپڑی میں داخل ہوگیا اور ٹارزن پر پانی کے چھینٹےمارنے لگا لیکن ٹارزن کو ہوش نہ آیا اور منکو پھر باہر کی طرف چھلانگ لگا کر جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ایک طرف تین آدمی آپس میں بحث کر رہے تھے کہ ٹارزن کو خود ہی ہوش نہ آجائے جبکہ ان میں سے ایک نے کہا کہ جب تک ٹارزن کے منہ پر شلاک بوٹی نہ رگڑی جائے تب تک ٹارزن کو ہوش نہیں آسکتا۔ وہ بوٹی ہمارے جزیرے کے شمال کی طرف لگی ہوئی ہے۔اسکی خاص نشانی یہ ہے کہ اسکی ٹہنی نیلے رنگ کی اور پتے سرخ رنگ کے ہوتے ہیں اور یہ بوٹی سردار نے شمال کی طرف ایک سرنگ بنا کر اس میں اُگائی ہے اور باہر دوآدمی ہر وقت پہرہ دیتے رہتے ہیں۔جو بھی اس طرف گیا وہ اندر واپس نہیں آیا وہ بوٹی صرف سردار ہی لے کر آسکتا ہے۔

منکو یہ بات قریب ہی ایک درخت پر بیٹھا سن رہا تھا اور پھر وہ اچانک مڑا اور شمال کی طرف دوڑنے لگا تقریبا 5منٹ  دوڑنے کے بعد اس کو ایک سرنگ نظرآئی جس کے باہر دو آدمی پہرہ دیرہے تھےمنکو سرنگ  کے قریب درخت پر بیٹھ کر سوچنے لگا  کہ اندر کیسے  جایا جائے کیونکہ وہ آدمی سرنگ کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے تھے پھر اچانک منکو کو  ایک ترکیب سوجھی منکو نے پاس والے ناریل کےدرخت سے ایک ناریل توڑ کے ایک پہرے دار کے سرپر  دے مارا۔

سر پر ناریل لگنے کی وجہ سے وہ بے چین ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور منکو کو اندر جانے کیلئے جگہ مل گئی اور وہ چھلانگ لگا کر سرنگ میں غائب ہوگیا سرنگ میں چند کمرے بڑےبڑے بنائے گئے تھے۔

جس میں شلاک بوٹی اُگی ہوئی تھی۔منکو نے وہ بوٹی تھوڑی سے لیکرسرنگ کے دروازے کے قریب جاکر دیکھا تو وہ آدمی ابھی تک اس کو تلاش کررہا تھا اور منکو چھلانگ لگا کر پھر درخت پر بیٹھ گیا اور سانسیں ٹھیک کرنے لگا کیونکہ اسکو کافی لمبی چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھنے کا موقع ملا تھا۔پھر تھوڑی دیر بعد منکو واپسی کے لیے دوڑ پڑااور جلد ہی ٹارزن کی جھونپڑی میں پہنچ گیا اور اسکے منہ میں اس بوٹی کا تھوڑا سا پانی ڈال کر بقیہ بوٹی اسنے ٹارزن کے منہ پر رگڑی کچھ دیر بعد ٹارزن میں حرکت کے آثار نظر آنے لگے۔

پھر ٹارزن نے آنکھیں کھول کر منکو کو دیکھا جو ابھی تک پریشان نظر آرہا تھا۔ٹارزن کو ہوش میں آتا دیکھ کر منکو ناچنے لگا۔

زیادہ خوشی مت مناؤاور مجھے جلدی سے کھولو۔۔۔ ٹارزن نے منکو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔تھوڑی دیر بعد ٹارزن رسیوں سے آزاد ہوچکا تھا

جاؤکوئی اور نئی خبر لاؤ۔۔۔ٹارزن نے منکو کو حکم دیتے ہوئےکہا۔اورمنکو سر ہلاتا ہوا جھونپڑی سے باہر نکل گیا باہر ایک طرف دس آدمی آپس میں گفتگو کر رہے تھے ان میں ایک بوڑھا بھی شامل تھا

یہاں سے مشرق کی جانب دو کلومیڑدورایک سرنگ بنائی گئی ہے۔اس سرنگ میں ایک کمرہ اور کمرے کے نیچے ایک تہہ خانہ ہے۔ جہاں پر ایک ٹیبل پر ایک پُتلابنا ہوا ہے اس پتلے کے اندر بے شمار چھوٹےچھوٹے سانپ ہیں ان میں سے ایک سانپ کا رنگ نیلا ہے اگر وہ سانپ مرجائے تو ہمارے منہ میں سے جو پھوار نکلتی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور پھر ٹارزن ہمیں آسانی سے مارسکتا ہے۔۔۔ بوڑھے نے لوگوں کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

وہاں اس سانپ کی نگرانی نہیں کی جاتی۔آدمیوں میں سے ایک آدمی نے بوڑھے سے سوال کیا۔ اس پتُلے میں تقریبا ڈیڑھ سو کے  قریب چھوٹےچھوٹے سانپ ہیں۔وہ سب نیلےسانپ کو اپنا دیوتا مانتے ہیں۔وہ سب مل کر اس کی نگرانی کرتے ہیں اور سرنگ کے باہر ایک جھونپڑی میں ایک خونخوار چیتا بھی وہاں کی نگرانی کرتا ہے۔۔۔ بوڑھےنے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا۔ منکو یہ سب باتیں ایک درخت پر بیٹھا سن رہا تھا۔ پھر منکو نے ٹارزن کو یہ خبر سنانی بہتر سمجھا اور وہ درختوں کوپھلانگتا ہوا ٹارزن کی جھونپڑی میں پہنچ گیا۔پھر منکو نے ٹارزن کو وہ ساری باتیں بتا دیں   جو وہ ابھی سن کر آیا تھا۔

جاؤ تم لاکاب بوٹی لیکر جلدی آؤ۔۔۔ٹارزن نے منکو کو کہا

سرداراس بوٹی کی کیا خصوصیات ہیں جوہم آپ لیکر ان لوگوں کا مقابلہ کرو گے۔ ۔۔منکو نے بوٹی کی خصوصیات معلوم کرنے کے لئے سوال جھڑدیا۔

اگر یہ بوٹی چبا کر کھائی جائےتو کتنا ہی زہریلاسانپ کیوں نہ ہوا اگر وہ ڈس بھی لے تو اس کے زہر کا اثر نہیں ہوگااوراس بوٹی کا اثر تقریبا دوسے تین گھنٹے  تک ہوتا ہےاسکے بعد اس بوٹی کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔ٹارزن نے منکو کو اس بوٹی کی خصوصیات بتاتے ہوئے۔ منکو سرہلاتا ہوا جھونپڑی سے باہر نکل گیاپھر تقریبا تھوڑی دیر بعد منکو واپس آیا تو اسکےہاتھ میں لاکاب بوٹی تھی جو ٹارزن نے لیکر آنےکو کہا تھا۔ٹارزن نے منکو کے ہاتھ سے لاکاب بوٹی لیکر اُسے چبانا شروع کر دیا کچھ دیر بعد ٹارزن نے ساری بوٹی چبالی اور جھونپڑی سے باہرنکل گیا اور ادھر اُدھر کا جائزہ لینے لگا۔

جھونپڑی کے چاروں اطراف ایک ایک آدمی ذرا فاصلے پر دوسری طرف منہ کئے کھڑا تھا جبکہ  ایک آدمی جھونپڑی کے اردگرد چکر لگا رہا تھا۔جب وہ آدمی ٹارزن کی طرف آیا تو ٹارزن نے اپنا خنجر سنبھال لیا اور یکلخت چھلانگ لگاتے ہوئے خنجر اُسکے دل میں اتاردیا۔

وہ آواز نکالےبغیر ہی زمین پر گر ا اور ساکت ہوگیا۔ٹارزن ادھر سےفارغ ہوکر جھونپڑی کےدائیں جانب کھڑے آدمی کی طرف چل پڑا اور پھر اپنا خنجرآدمی کی کمر میں اس جگہ ماراکہ خنجر جسم میں سوراخ بناتا ہوا دل تک پہنچ گیا اسنے مدد کے لیے آواز نکالنی چاہی تھی کہ ٹارزن نے ایک بار پھر اپنا خنجر اسکے دل میں اتاردیا اور وہ بھی آواز نکالے بغیر ڈھیر ہوگیا۔

اور پھر ٹارزن مشرق کی جانب چل پڑا جبکہ منکو ٹارزن کی رہنمائی کررہا تھاسردار سامنے سے کچھ آدمی آتے دکھائی دے رہے ہیں منکو نے اپنی تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے ٹارزن کو خبر دار کردیا اور ٹارزن جلدی سے ایک درخت پر چڑھ گیا۔

پھر کچھ دیر بعد وہاں سے کچھ آدمی گزرےجو بالکل خاموش تھے ان کے جانے کے بعد ٹارزن درختوں کو پھلانگتا ہوا سرنگ کے پاس پہنچ گیا ٹارزن جیسے ہی سرنگ کے قریب پہنچا تھا کہ اچانک چیتے کے دھاڑنے کی آواز سنی۔

ٹارزن بالکل خاموش کھڑا چیتے کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک چیتا چھلانگ لگا کر ٹارزن کو گرانا چاہا لیکن ٹارزن گھوم کر سائیڈپر سے ہوکر یکلخت چھلانگ لگائی اور چیتے کی پشت پر سوار ہوگیا۔چیتے نے ٹارزن کو نیچے گرا کر اسکی بوٹی بوٹی کرنی چاہی تھی لیکن ٹارزن بھی آخر ٹارزن تھا ٹارزن نے چیتے کی آنکھ میں انگلی ماری چیتے نے دھاڑنے کےلیے منہ کھولا تو ٹارزن نے چیتے کے منہ میں ہاتھ ڈال کر زور لگایا اور اسکے جبڑے گردن تک چیرتےچلے گئے اور ٹارزن نے خنجر چیتے کے دل میں اتاردیا اور وہ تڑپ تڑپ کر ڈھیر ہوگیا۔ٹارزن اس کام سے فارغ ہوکر سرنگ میں داخل ہوگیا اور ایک کمرے میں چلا گیا وہاں پر میز کے اوپر واقع ایک پُتلا کھڑا تھا اور اسکی آنکھوں کانوں اور منہ سے چھوٹےچھوٹےسانپ لٹک رہے تھے ٹارزن نے اپنا خنجرسنبھال کر پُتلے کے ٹکڑےکر دئیے اس میں سے بے شمار سانپ ٹارزن کی طرف لپکے اور ٹارزن آرام سے بیٹھا نیلےرنگ کے سانپ کو تلاش کرنے لگا کہ اچانک ٹارزن کونیلا سانپ نظر آگیا۔

ٹارزن نے لپک کر سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر واپسی کی طرف چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد ٹارزن واپس جھونپڑی کے قریب پہنچ گیااور سا ئیڈ پرکھڑےپہرےدارکو آواز دی پہرےدارنے ٹارزن کو اس طر ح کھڑےدیکھ کر ٹارزن کے پاس پہنچ کر پھوار مار کر ٹارزن  کو بے ہوش کرناچاہا کہ اسکے منہ سے پھوار  نہیں نکلی اور وہ واپسی کی طرف دوڑ پڑا اور مدد کے لیے لوگوں کو پکارنے لگاتھوڑی دیر بعد ٹارزن ایک مرتبہ پھر ان سب کے درمیان اطمینان سے کھڑا ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔

تم کون ہو؟ اور  تمہاراسردار کون ہے۔۔۔ٹارزن نے غرا کر کہا۔

تم کیوں پوچھتے ہو تم صرف قیدی ہو اور۔۔۔

خبرداراگر تم لوگوں نے مجھے قیدی کہا میں جنگلوں کا بادشاہ ٹارزن ہوں ٹارزن نے  ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا

اگر تم لوگوں نے میرے سوال کا جواب نہ دیا تو میں یہ سانپ کو کچل کر رکھ دوں گا۔۔۔  ٹارزن نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑکر کہا

ٹارزن کے ہاتھ میں سانپ دیکھ کر وہ سب کانپ گئے کیونکہ ان کو یقین تھا کہ اس کے گرد بے شمارسانپ ہیں اور وہ اتنے زہریلے ہیں کہ اگر ایک سانپ چٹان کو بھی ڈس دے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے گی ہم ہم کرٹائی مخلوق ہیں اور ہمارا سردار آکاٹوہے وہ تھوڑی دور ہی اپنے خیمےمیں موجودآرام کررہا ہوگا۔۔۔ ان میں سے ایک آدمی نے آگے بڑھ کر خوفزدہ لہجے میں جواب دیا۔

چلومجھے اپنے سردار کے پاس لے چلو ۔۔۔ ٹارزن نے ان کو حکم دیتے ہوئے کہا۔کچھ لوگ آگے کچھ پیچھےجبکہ ٹارزن ان کہ درمیان چل رہا تھا کہ وہ سب آکاٹوسردار کے خیمےکے باہر کھڑے ہوگئے۔

پلاش جاؤسردارکوباہربھیجواسکو کہو کے باہر موت سر پر منڈلارہی ہے۔۔۔ ایک بوڑھے نے آگے بڑھ کر باہر کھڑے دربان سے کہا اور وہ اندر جاکر سردار کو یہ خبر سناکر آیا تو اسکے پیچھے ان کا سردار حیرت سے باہر کھڑے لوگوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ٹارزن کے ہاتھ میں پکڑا ہواسانپ دیکھ کر کانپ گیا اور پھر آکاٹو قدموں میں سجدہ کرنے کےلیےجھکاہی تھا کہ ٹارزن نے ایک ٹھوکر سردار کے منہ پررسیدکی۔اور کہا تم مجھے سجدہ کیوں کررہے ہو تمہیں ایک خدا کی عبادت کرنی چاہیئے اور پھر ٹارزن نے اس مخلوق کو ایک خدا کی عبادت کی طرف توجہ دلا کر واپس اپنے جنگل کی طرف چلا گیا وہ خوش تھا کہ اس نے ایک نئی مخلوق کو اپنے بھولے ہوئے خدا کی طرف جھکا دیا۔


Post a Comment

0 Comments