آپ بھی کہانی تخلیق کریں اور جیتیں ہزاروں کے نقد انعامات

Ishq Badzaat by Danish Ahmad Shahzad - Ebook Published by Digital Kahani


"میں اس کے بغیر مر جاؤں گی " ۔ ثناء نے تڑپ کر کہا۔
اس وقت سارے گھر میں ثناء کے عشق کے چرچے تھے کلموہی نے سارے گھر کو سر پر اٹھا رکھا تھا شرم و حیا کے سارے قاعدے ، کلیئے کتابی باتیں نظر آرہے تھے ۔ ماں سے کئی بار وہ اپنے عشق کی یقین دہانی کا تذکرہ کرچکی تھی ۔ بھائیوں کو اس کی ضد اور ہٹ دھرمی کے آگے مجبور و بے بس ہونا پڑرہا تھا کیونکہ وہ گھر میں سب کی آنکھوں کا تارا تھی ۔ مگر سارا گھر اس کی ضد کی لپیٹ میں آچکا تھا کئی بار وہ چھوٹی بہنوں کے سامنے ماں کے تھپڑ بھی کھا چکی تھی۔ کہتے ہیں کہ لڑکی جب کوئی فیصلہ کرلیتی ہے تو پھر وہ بے لگام بدکی ہوئی گھوڑی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ۔


ادھر گھر میں ثناء نے کہرام مچا رکھا تھادوسری جانب اس کا عاشق کالج میں دوسری کئی لڑکیوں سے پیار کی پینگیں چڑھا رہا تھا۔ ایک نمبر کا دل پھینک تھا سچ تو یہ ہے کہ لڑکا کبھی ایک ہی لڑکی کے پیچھے نہیں مرتا ۔ پرانے زمانے کے عاشق بھی اس لئے مرگئے کہ دوسری کوئی ان کو گھاس تک نہ ڈالتی تھی جس نے ذرا سی چھوٹ دی اسی پر جان دے دی۔ اور یہاں بھی وہی زمانہ تھا اور لڑکے کی فطرت بھی وہی تھی ۔  کئی شادی شدہ بھی دیکھے ہیں جو کبھی بھی اپنی بیوی کی تعریف نہیں کریں گے ذرا دوسری عورت ذات پر نظر پڑی نہیں اور تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں۔ اور ویسے بھی لڑکے کی یہ فطرت میں رکھا گیا ہے تبھی تو شائد اسے ایک سے زائد شادیوں کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ لیکن عورت اپنی کمزوری کی وجہ سے کبھی لڑکے کی نفیسات اور فطرت کو نہیں سمجھ سکے گی۔ اسی پر تو ثناء بھی مر رہی تھی نہیں جانتی تھی کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے گھر والوں کی عشروں کی محبت چند دن کی محبت پر غالب ہوگئی تھی جوانی کا نشہ جس پر بھی چڑھتا ہے سب کچھ الٹ کر رکھ دیتا ہے۔






گھر میں اماں نے بہت سمجھایا ، بہنوں نے طرح طرح کی صلاح دی مگر وہ عشق ہی کیا جو سایہ بھی ڈالے اور دوسرے سایوں کے ساتھ شراکت داری بھی کرے۔
ایک بار تو گھر میں پڑا مٹی کا تیل پی لیا مگر موت کمبخت اتنی جلدی کہاں آتی ہے ثناء لگی تڑپنے ہاتھ پاؤں مارنے گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی مگر اسے جان جوکھوںمیں ڈال کر ہسپتال داخل کرایا اللہ کیاجان بچ گئی۔ جسم سے تیل تو نکل گیا مگر موا عشق بدذات نہ نکل سکا ان انگریزی ڈاکٹروں سے۔



ہسپتال سے واپسی پر خوب خاطر مدارت کی گئی ، بہنوں نے خود خدمت کی بھائیوں نے الگ چاہ اٹھائے۔جب قسمت ہی روٹھی ہو تو پھر کوئی کیا کہے۔ایک دن میں موقع ملتے ہی سہیلی کے نام پر گھر سے نکل کر اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ۔ گھر والے اس کے واپس آنے کا انتظار کرتے ہی رہ گئے اسی انتظار میں ، بدنامی میں باپ اس دنیا سے چل بسا، ماں بیمار رہنے لگی ، دوسری بہنوں کے لئے ایک الگ محاذ کھڑا ہونے لگا، بھائیوں کا کیا تھا وہ تو ہر گلی نکڑ پر اس کو اپنا خون ماننے سے انکار کرچکے تھے ۔ وقت بے رحم ہوتا ہے مگر اتنا ہوگا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔






ادھر ثناء اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ کر رہ رہی تھی بارہا اس نے بشیر سے کورٹ میرج کے لئے کہا، گھر لے جانے کی التجائیں کیں مگر وہ ہر بار ہر بات اس کی ٹالتا رہا ۔ کبھی حالات کے سازگار ہونے کا بہانہ تو کبھی وقت نہ ہونے کا بہانہ مگر عادت سے مجبور تھا دل پھینک کو اس نے قید کررکھا تھا اور یہی قید وہ پسند نہیں کرتا تھا۔ شروع کے دن تو بہت اچھے گزرے ، ایک دوسرے کی تعریفوں کے پُل باندھے گئے ، ہواؤں میں شاعری کے پھول کھلائے گئے۔ ایک دوسرے کی گود میں بیٹھ کر راتیں گزریں مگر اس عشق کا کیا کِیا جائے جس کی بنیاد ایک عورت کے فیصلے پر ہو وہ عورت جس کی گواہی بھی پوری نہیں مانی جاتی زمانے میں۔مگر یہ حقیقت ہے کہ عورت کے آگے مرد کب تک ٹِک سکتا ہے ایک دن ہار ماننی ہی پڑتی ہے اور یہی ہوا بشیر بھی ثناء کے آگے ہار مان گیا نہ جانے راتوں میں کونسا جادوکیا، کیا کیا گھول کر پلاتی رہی کہ بشیر نے نہ صرف اس سے کورٹ میرج بھی کرلی اور گھر بھی لے گیا۔


گھر میں اسے کسی نے قبول نہ کیا سننی الگ پڑیں بشیر کو جائیداد سے عاق کردیا گیا دونوں کو گھر سے بے دخل کر دیا دونوں کی سبکی جو ہوئی سو ہوئی اب ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا کہ کہیں کرائے کے مکان میں رہتے ایک ماہ تو کرائے کے مکان میں رہ لیا مگر جو روپے پیسے تھے وہ تو اب ختم ہوچکے تھے اور عشق بھی تب تک ہی رہتا ہے جب تک پیٹ بھرا ہوا ہو خالی پیٹ تو نماز نہیں ہوتی عشق کیا خاک بچے دے گا۔رفتہ رفتہ دونوں میں کھٹ پٹ ہونے لگی اور یہ آہستہ آہستہ طول پکڑنے لگی گھر میں تُو تُو میں تو پہلے ہی سے جاری تھی اب تو عجیب سا ماحول پیدا ہورہا تھا کورٹ میرج کے باعث نہ چھوڑ سکتے تھے اور نہ ہی معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکتے تھے چاروناچار گزارہ کرتے کرتے وقت گزرنے لگا بشیر کا وقت گھر سے باہر اچھا گزرنے لگا گھر میں بیٹھی ثناء جو ٹھاٹ سے آسمان پر رہنے کی عادی تھی عشق بدذات کی وجہ سے زمین پر آگئی ، رہ رہ کر گھر کی یاد ستانے لگی بھائی، بہن اور ماں باپ یاد آنے لگے۔ ملنے کا جی چاہتا مگر کس منہ سے جاتی وہ تو سب چھوڑ کر آئی تھی۔






ایک بچے کے ہونے سے گھر میں کچھ عرصہ بعد حالات مزید تنگ ہونے لگ گئے گزرے دو سال کی تکلیفوں کو یاد کرتی تو جسم میں سرد لہر سی سرکتی محسوس ہوتی گھر کی یاد ستانے لگتی تو ماں باپ کو یاد کرکے روتی اور اپنا بوجھ ہلکا کرلیتی۔ وقت جس رفتار سے گزر رہا تھا لگ رہا تھا کہ گھسٹ رہا ہو نہ جانے یہ تنگی کے دن کب تک چلنے والے تھے۔ شوہر سے تو وہ بے خبر نہ تھی روز رات کو آتے تو ماحول میں تناؤ آجاتا بشیر گھر سے باہر تو خوش رہتا جوں ہی گھر آتا تنگی محسوس کرتا شادی تو ثناء سے کرلی تھی مگر کالج کی بگڑی عادتیں کب سنوری تھی ایک دن ثناء کو خبر ہوئی کہ اس کا شوہر کسی اور ہی چکر میں ہے تو بہت سمجھایا بجھایا، روئی پیٹی بچے کے واسطے دیئے مگر پھر خاموش ہوگئی کر بھی کیا سکتی تھی۔



کچھ دن گزرنے کے بعد بشیر صبح سویرے گھر سے نکلا اور پھر نہ آیا شائد وہ بھی بھگوڑا گھر سے بھاگ گیا تھابالکل اسی طرح جس طرح وہ گھر سے بھاگ کر آئی تھی ۔ اس کے عشق بلائے آفت کے ایک فیصلے نے ساری زندگی اسے اس ایک فیصلے کو سہنے پر مجبور کردیا تھا بہت تلاش کیا جاننے والے سب سب سے  پتہ کرایا مگر ہر طرف سے جھوٹی تسلیاں اور ہمدردیاں تو ملیں مگر وہ عشق جو روٹھ گیا نہ ملا۔



اچانک دروازے پر دستک ہوئی نہ جانے کیوں اس کا دل صبح سے ہی بیٹھا جارہا تھا اور دستک سے زور زور سے دھڑکنے لگا۔ بوجھل قدموں سے دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیا ایک لفافہ تھامے کھڑا تھا وہ لفافہ اس نے ثناء سے ایک کاغذ پر دستخط کرا کر اسے تھمادیا وہ لفافہ اس کی آزادی کا پروانہ تھا جو اسے اس کے سابق شوہر بشیر نے اسے بھیجا تھا۔


Post a Comment

0 Comments