عمرو اور پہاڑی ڈاکو
عمرو پریشانی کے عالم میں ایک وادی میں گھومتا پھر رہا تھا۔ وادی کے چاروں اطراف رنگ برنگی خوبصورت پہاڑیاں تھیں۔ عمرو اس وادی میں داخل ہوا تو اچانک اس کا گھوڑا وہیں گر کر مرگیا تھا۔
اس کے گھوڑے کا پیر رپٹ گیا تھا جس سے وہ سر کے بل گرا تھا اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور وہ وہیں مرگیا تھا۔ اپنے گھوڑے کے مرنے کا عمرو کو بے حد افسوس تھا۔ وہ کافی دیر وہیں رکا مردہ گھوڑے کو دیکھتا رہا پھر پیدل ہی اس وادی میں آگیا۔ وہ سردار امیر حمزہ سے رخصت لے کریمن کی طرف جارہا تھا جہاں راستے میں یہ وادی پڑتی تھی۔
سردار امیر حمزہ نے خود ہی عمرو عیار کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ مہینے دو مہینے بعد اپنی بیوی چاند تارا سے ملنے ضرور جایا کرے تاکہ چاند تارا کو یہ احساس نہ ہو سکے کہ وہ اکیلی ہے۔ اس طرح چاند تارا کو بھی عمرو کی خیریت معلوم ہوجاتی تھی اور عمرو بھی اپنی بیوی چاند تارا کی خیریت سے آگاہ ہوجاتا تھا۔
ملک یمن اس وادی سے خاصا دور تھا۔ عمرو عیار پریشان تھا کہ اگر وہ اسی طرح سے پیدل چلتا رہا تو اسے ملک یمن پہنچتے پہنچتے کئی روز لگ جائیں گے۔لیکن اس کا گھوڑا گر کر مرچکا تھا یہاں سے اسے کوئی سواری بھی میسر نہیں آسکتی تھی اور نہ ہی وہ زنبیل میں موجود اپنی کراماتی چیزوں کا استعمال کرسکتا تھا۔ اس کی کراماتی چیزیں اس وقت اس کے کام آتی تھیں۔
جب وہ کسی مہم پر ہوتا۔ عام حالات میں زنبیل سے کوئی مدد حاصل نہیں کرسکتا تھا۔
عمرو نے ابھی آدھی وادی ہی عبور کی تھی کہ اچانک ایک پہاڑی کے پیچھے سے پانچ خوفناک شکلوں والے انسان نکل کر اس کے سامنے آگئے۔
ان سب نے گرم اونی لباس پہن رکھے تھے اور ان کے پیروں میں موٹے چمڑے کے جوتے تھے۔ ان سب کی مونچھیں بے حد بڑھی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں نظر آرہیں تھیں۔ عمرو کو دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھے اور انہوں نے عمرو کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔
کک ۔ کون ہو تم ۔ عمرو نے ان سب کی طرف پلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ان میں ایک شخص نے نیلا لباس پہن رکھا تھا وہ آگے بڑھا اور عمرو کی جانب خونی نظروں سے دیکھنے لگا۔
ڈاکو ۔ ۔۔اس نیلے لباس والے نے کہا تو ڈاکو کا سن کر عمرو عیار کا رنگ اڑ گیا۔
ڈڈ ۔ ڈاکو۔ عمرو نے گھبراہٹ زدہ لہجے میں کہا۔
ہاں ۔ ہم ڈاکو ہیں۔ پہاڑی ڈاکو ۔ ۔۔۔ اس نیلے لباس والے نے کہا تو عمرو کا رنگ اور زرد ہوگیا۔ اس نے پہاڑی ڈاکوؤں کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ بے حد ظالم، بے رحم اور سفاک ڈاکو تھے جو نہ صرف انسانوں کو لوٹتے تھے بلکہ لوٹنے کے بعد اسی انسان کو نہایت بے دردی سے قتل بھی کردیتے تھے۔ یمن کے بادشاہ اور دوسرے ملکوں کے بادشاہوں نے ان ڈاکوؤں کی تلاش میں کئی بار فوجی دستے بھیجے تھے لیکن آج تک وہ ان ڈاکوؤں میں سے کسی ایک کو بھی تلاش نہیں کرسکے تھے۔
ان ڈاکوؤں کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ وہ لوٹ مار اور قتل و غارت کرنے کے بعد پہاڑیوں میں جا کر نہ جانے کہاں چھپ جاتے تھے کہ لاکھ تلاش کرنے کے باوجود ہاتھ نہیں آتے تھے۔ البتہ ان ڈاکوؤں کے بارے میں اتنا ضرور مشہور تھا کہ ان ڈاکوؤں کی تعداد پانچ تھی اور ان کے سردار کا نام زنگا ڈاکو تھا۔
کک۔ کیا تم زنگا ڈاکو ہو۔ ۔۔۔ عمرو نے نیلے لباس والے ڈاکو کی طرف خوف بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں ، میں زنگا ڈاکو ہوں۔۔۔۔۔نیلے لباس والے ڈاکو نے کہا۔
یہاں کیوں آئے ہو، مجھ سے کیا چاہتے ہو۔ عمرو نے خوف سے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
تمہارے پاس جو کچھ ہے نکال کر ہمارے حوالے کردو۔ ۔۔۔ زنگا ڈاکو نے خوفناک لہجے میں کہا۔
میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ایک گھوڑا تھا وہ بھی اس وادی کے دوسری طرف گر کر مر گیا ہے اور۔۔۔۔ عمرو نے کہا۔
بکواس مت کرو۔ تمہارے پاس جو مال و دولت ہے وہ نکال کر ہمیں دے دو ورنہ میں کلہاڑی مار مار کر تمہارے ٹکڑے اڑاں دوں گا۔ زنگا ڈاکو نے غصیلے لہجے میں کہا۔
مم ۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ۔ میرے پاس واقعی کچھ نہیں ہے۔ ۔۔ عمرو نے کہا۔
سردار ۔ اس نے بغل میں جو تھیلا لٹکا رکھا ہے ۔ اس میں ضرور اس کا قیمتی سامان ہوگا۔ ۔۔۔عمرو کے پیچھے کھڑے ایک ڈاکو نے کہا۔
ہوں ۔ اتارو یہ تھیلا اور مجھے دو۔۔۔۔ سردار زنگا نے عمرو کو گھورتے ہوئے کہا۔
تھیلا۔ اوہ ۔ نہیں ۔ یقین مانو۔ میرے تھیلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ میں اس تھیلے کو لے کر جنگل میں جاتا ہوں اور جنگلی جڑی بوٹیاں اکھٹی کرتا ہوں، یقین نہیں آرہا تو خود ہی دیکھ لو ۔۔۔۔عمرو نے کہا۔ اس نے کاندھے سے زنبیل اتاری اور اسے الٹا کرکے ان ڈاکوؤں کے سامنے جھاڑنے لگا۔ مگر زنبیل سے کچھ نہ نکلا۔ یہ دیکھ کر سردار زنگا نے غصے سے ہونٹ بھینچ لئے۔
ماگا۔ آگے بڑھ کر اس کی تلاشی لو۔۔۔ سردار زنگا نے اپنے ایک ساتھی سے کہا تو ایک ڈاکو آگے بڑھا اور عمرو عیار کی تلاشی لینے لگا۔
ارے ۔ ارے کیا کررہے ہو ۔ ارے۔ مجھے گدگدی ہورہی ہے۔ ارے۔ ہی۔ ہی۔ ہی۔ ہو۔ ہو۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔ ۔۔۔ عمرو نے جان بوجھ کر تلاشی کے دوران بری طرح سے مچلتے ہوئے اور ہنستے ہوئے کہا جیسے اسے واقعی گدگدیاں ہورہی ہوں۔
سردار ۔ یہ سچ کہہ رہا ہے ۔ اس کے پاس واقعی کچھ نہیں ہے۔ تلاشی لینے والے ماگا ڈاکو نے کہا۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ شکل سے تو یہ اچھا خاصا مالدار معلوم ہوتا ہے۔ اس نے لباس بھی بے حد قیمتی پہن رکھا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے پاس کچھ نہ ہو۔۔۔۔ سردار زنگا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ اچھی شکل اور اچھے لباس والا انسان مالدار ہی ہو۔ میں ایک غریب اور فقیر سا انسان ہوں۔ میری دس بیویاں اور دو درجن بچے ہیں جو بھوک اور افلاس سے بلکتے رہتے ہیں۔ تم مجھے شکل سے نیک اور شریف ڈاکو معلوم ہورہے ہو۔ تم نے آج تک جتنے لوگوں کو لوٹا ہے۔ اگر لوٹے ہوئے سامان سے آدھا سامان تم مجھے دے دو تو میں اور میرے بچے ساری زندگی تمہیں دعائیں دیں گے۔۔۔ عمرو نے مسکین سی صورت بناتے ہوئے کہا۔
آدھا خزانہ۔ ہونہہ ۔ کیا تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے۔ ۔۔سردار زنگا نے اسے غصیلی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔؎
ہاں۔ نن۔ نہیں۔ مم میرا مطلب ہے۔ تم جیسے خوفناک، بدشکل اور بھیانک شکلوں والے ڈاکو بھلا پاگل کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔ عمرو نے کہا تو سردار زنگا کا چہرہ غصے سے اور سرخ ہوگیا۔
ہونہہ۔ اس بھکاری کے لئے کالی غار سے نکل کر ہم نے خواہ مخواہ اپنا وقت ہی ضائع کیا ہے۔
ہلاک کردو اسے اور اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے وادی میں پھینک دو۔ ابھی کچھ ہی دیر میں یہاں گدھ آجائیں گے اور اس کی لاش کے ٹکڑے کھاجائیں گے۔۔۔۔ سردار زنگا نے غصیلے لہجے میں کہا۔ اس کی بات سن کر عمرو عیار بوکھلا گیا۔
ڈاکوؤں نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا وہ اس کے کافی قریب تھے۔ سردار زنگا کی بات سن کر ڈاکوؤں نے اپنی کلہاڑیاں بلند کرلیں۔ اس سے پہلے کہ وہ عمرو عیار پر حملہ کرتے عمرو نے فوراََ زنبیل میں ہاتھ ڈال کر تلوار حیدری نکال لی۔ اسے تھیلے سے اس طرح تلوار نکالتے دیکھ کر ڈاکو حیران رہ گئے کیونکہ عمرو نے ان کے سامنے تھیلا جھاڑا تھا اور تھیلا خالی تھا۔ وہ شائد اس بات سے حیران تھے کہ اس تھیلے سے تلوار کیسے نکل آئی۔
تلوار نکالتے ہی عمرو عیار کا ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے حرکت میں آیا اور دو ڈاکو بری طرح سے چیختے ہوئے دور جاگرے۔ عمرو نے تلوار حیدری کے ایک ہی وار سے ان کی گردنیں اڑا دیں تھیں۔ اپنے دو ساتھیوں کو اس طرح ہلاک ہوتے دیکھ کر سردار زنگا اور اس کے باقی دو ساتھی اور زیادہ غضبناک ہوگئے۔ انہوں نے اچھل اچھل کر حملے کرنا شروع کردئیے۔ پھر ایک ڈاکو کی کلہاڑی اس کی کمر کو جیسے ہی چھو کر گزری۔ عمرو عیار کو کمر پر شدید جلن کا احساس ہوا۔
دوسرے لمحے اس کا چہرہ شدید غضب سے بگڑتا چلا گیا۔ اس ایک زور دار چیخ ماری اور اس نے اور زیادہ تیز اور خوفناک انداز میں تلوار چلانی شروع کردی۔ دو ڈاکو اور ہلاک ہوگئے تھے۔ اب صرف سردار زنگا باقی تھا جو بڑھ چڑھ کر عمرو پر حملے کررہا تھا۔ مگر عمرو عیار نے چند ہی لمحوں میں اسے بھی ہلاک کردیا۔ اب پانچ کے پانچ ڈاکوؤں کی لاشیں وہاں بکھری پڑی تھیں۔
ہونہہ۔ مجھے لوٹنے آئے تھے۔ خواجہ عمرو عیار کو ۔۔۔ عمرو نے غراتے ہوئے کہا۔ ڈاکوؤں کے حملے سے اسے واقعی غصہ آگیا تھا۔ اسی لئے وہ ان ڈاکوؤں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ان ڈاکوؤں نے کسی کالی غار کا نام لیا تھا۔ عمرو نے سوچا کہ ضرور ان ڈاکوؤں نے اپنا خزانہ کالی غار میں چھپا رکھا ہوگا۔
اس نے زنبیل سے ایک سرخ گیند نکالی اور اسے زمین پر ڈال دیا اس نے سرخ گیند سے کہا کہ اسے کالی غار میں پہنچا دیا جائے۔گیند حرکت میں آئی اور اسے پہاڑیوں کے بیچ ایک خفیہ غار میں لے گئی جہاں واقعی خزانے کے ڈھیر دیکھ کر عمرو عیار کی باچھیں کھل گئیں۔ جو ڈاکو اسے لوٹنے آئے تھے اب ان کا خزانہ عمرو عیار لوٹ رہا تھا۔
0 Comments
Thanks for your feedback.