جب اکبر نے فریدہ کو ریاض سے ملایا تو ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ ریاض معصوم صورت کا خاموش سا لڑکا تھا۔ ہم دونوں ایک ہی گلی میں کنچے، گپل اور کبڈی کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ اتفاق سے کالج میں بھی ساتھ نہ چھوٹا پھر یہ بھی بمبئی آگیا کتنا عجیب اتفاق ہے۔
اکبر نے کہا تھا "ذرا بورنگ سا انسان ہے" یہ جملہ بھی ساتھ ہی لگا دیا تھا۔
شروع شروع میں عموماََ تینوں ساتھ ساتھ رہتے ، سینما کے تین ٹکٹ خریدے جاتے ہوٹل میں تین سیٹیں ریزرو ہوتیں، ریاض کا وجود کچھ لازم ملزوم ہوگیا تھا۔ پھر جوں جوں شادی پرانی ہوتی گئی اور اکبر کی مصروفتیں بڑھتی گئیں ۔ فریدہ اور ریاض کا ساتھ بڑھتا گیا ۔ اکبر تو نئے دوستوں اور نئے مشغلوں میں ڈوب کر دیر سے آتے ۔ ریاض سیدھا دفتر سے آجاتا، چائے پی کر اخبار یا میگزین دیکھا کرتا۔ کبھی دونوں کیرم یا تاش کھیلنے لگتے۔ فریدہ کسی سہیلی سے ملنے جاتی اور اکبر کو دیر ہوجاتی تو وہ ریاض کو لے کر جاتی ۔ اکبر تو کبھی عورتوں کی دلچسپ باتوں سے گھبرا کر چل بھی دیتا۔ " تم ریاض کے ساتھ لوٹ آنا" اور وہ ریاض کے ساتھ لوٹ آتی ۔
شادی پرانی ہوتی گئی مگر ریاض کی اہمیت دن بدن بڑھتی گئی فریدہ نے انجانے طور پر شوہروں والے سارے اوپری کام ریاض سے لینے شروع کردیئے۔ نوکروں کی مرمت کرنا، راشن کارڈ بنوانا، شاپنگ کے لئے دھکے کھاتے پھرنا، چھوٹے موٹے خط لکھنا، بینک میں روپیہ جمع کرانا، نکلوانا اور دوسرے بہت سے کام ، یہاں تک کہ جب فریدہ کا مس کیرج ہوا تو خوش قسمتی سے ریاض دفتر میں مل گیا۔ اسی نے آکر ہسپتال پہنچایا۔ اس دن اکبر کے کسی افسر کی الوداعی پارٹی تھی ۔ جب وہ وہاں سے رات کے دو بجے گھر پہنچے اور بیگم کی بدحالی کا پتہ چلا تو ظاہر ہے بہت گھبرائے مگر صبح کا انتظار کرنا پڑا۔ افسر کو اسٹیشن پر رخصت کرکے جب ہسپتال پہنچے تو اجاڑ صورت ریاض کو دیکھ کر ان کا بھی رنگ اڑگیا۔ وہ ساری رات بنچ پر بیٹھا اونگھتا رہا تھا اکبر نے زبردستی سے اسے آرام کرنے کے لئے بھیجا۔
انہیں ہسپتال روز جانے کی فرصت نہ تھی اس لئے وہ ریاض ہی کو فون کرکے دوائیں وغیرہ خریدنے کی ہدایت دے دیتے ۔ حسن اتفاق کہیئے یا قسمت کو جب وہ اچھی ہوگئی اور وہ اسے ہسپتال سے گھر لانے موٹر لے کر گئے تو معلوم ہوا وہ صبح ہی ریاض کے ساتھ گھر آچکی تھی۔ ریاض نے دفتر سے چھٹی لی تھی دن بھر کے بعد جب اکبر دفتر سے لوٹے تو ریاض گھر سنبھالے ہوئے تھا۔
پھر دن گزرتے گئے اکبر کی بے توجہی اور غیر دلچسپی نے اور بھی ذمہ داریاں ریاض کے کاندھوں پر ڈال دیں وہ ابھی تک چھڑا تھا۔دو ایک جگہ لوگوں نے شادی کرانے کی کوشش بھی مگر وہ ٹالتا رہا، " بھئی مجھے خانہ داری کے جھگڑوں سے وحشت ہوتی ہے" وہ کہہ کر ٹال دیتا اور بات بھی خدا لگتی تھی ۔ اکبر تو اسے ہمیشہ یہی نصیحت کرتے میاں اس چکر میں نہ پھنسنا کسی کام کے نہیں رہوگے۔ اپنی جوگت ہے دیکھ ہی رہے ہو، شادی وبال ہے۔
پھر بال بچے ہوئے اکبر تو بچوں کی چل پوں سے گھبرا کر کلب جاتے یا کسی دوست کے یہاں پینے پلانے کا پروگرام رہتا ۔ ریاض دفتر سے سیدھے ان کے گھر جاتے بچوں سے کھیلا کرتے روتے بچے کو شہد چٹا دیا، گرائپ واٹر دے دیتا۔ فریدہ کو اس سے الٹے سیدھے کام لینے میں مزہ آتا۔ وہ بے تکے پن سے بچے کا نیپکن بدلتا یا نہلاتے میں پانی ڈالتا تو وہ ہنستے ہنستے لوٹ جاتی۔ پہلے تو اسے بڑی گھبراہٹ ہوتی سر سے پیر تک بھیگ جاتا۔ لیکن فریدہ معذرت کرتی تو کہتا "کوئی بات نہیں"
اچھا ہے تم یہ کام سیکھ لو تمہاری بیوی مزے کرے گی۔
وہ ہنستی اور ریاض بھی ہنس دیتا۔کبھی کوئی بچہ بے بات رونے لگتا فریدہ کسی دوسرے کام میں مشغول ہوتی تو وہ ریاض کو ڈانٹتی ۔
اے ہے کیسے بیہودہ آدمی ہو بچہ رو رہا ہے۔ ذرا چُپ کرادونا۔
"الو کی اولاد ! چُپ ہی نہیں ہوتا۔
"لو ٹوٹے ہاتھوں سے اٹھایا نہیں جاتا " اور وہ بچے کو اٹھا کر اسے بہلانے کے لئے عجیب بندروں کی سی حرکتیں کرتا بچہ بہل جاتا۔
جوں جوں بچے بڑھے ریاض کی ذمہ داریاں بھی بڑھیں۔
بچوں کو کس اسکول میں داخل کرایا جائے ، اُون ریاض کے ایک دوست کے ذریعہ سستا مل سکتا ہے شکر ہے بلیک سے لینی ہو تو فریدہ اور فریدہ کی ساری سہیلیوں کے لئے ریاض مہیا کرے خود اکبر ان کاموں سے جی چراتےتھے ۔کبھی کوئی ایسی فلم آتی جس سے اکبر کو دلچسپی نہ ہو تو وہ خود کہہ دیتے ۔
"بھئی تم ریاض کے ساتھ دیکھ آؤ مجھے ایسی فلموں سے دلچسپی نہیں۔"
اکبر کی دلچسپیاں بہت کچھ پینے پلانے کے گرد محدود ہوتی جارہی تھیں ۔ ظاہر ہے اس صورت میں ریاض رات کا کھانا بھی یہیں کھانے لگا فریدہ اس کے ساتھ بچوں کو سیر کراتی ، سرکس دکھاتی ، شام کو دونوں مل کر بچوں کے ساتھ کھیلتے پھر بہلا پھسلا کر کپڑے بدلا کر سلادیتے۔ اکبر کو ان جھگڑوں کے لئے فرصت نہ تھی بچے بھی باپ سے بے تکلف نہ تھے۔ ریاض کے کندھوں پر چڑھ کر انکل انکل کرکے پیسے مانگتے، نئی نئی فرمائشیں کرتے اکبر تو فریدہ کو گھر کا خرچ دیتے تھے انہیں تحفے دینے کی کیا ضرورت تھی بچے بھی جان گئے تھے۔
آندھی آئے پانی برسے ریاض کا آنا ناغہ نہ ہوتا، اگر کسی وجہ سے وہ کسی دن نہ آپاتے تو سارا گھر پریشان ہوجاتا ، فریدہ بوکھلائی پھرتی سارے پروگرام الٹ جاتے خدا جانے ریاض کو کیا ہوگیا ۔ بیمار تو نہیں پڑ گئے ۔ کوئی ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوگیا کبھی نوکر دوڑاتیں ، کبھی پڑوس میں ٹیلی فون کرتیں۔ اگر بدقسمتی سے ریاض کسی دوست کے ساتھ سینما دیکھنے چلا گیا ہوتا تو دوسرے دن اس کی شامت آجاتی ۔ کہاں مر گیا تھا ذلیل ، مجھے فون کردیا ہوتا تو میں اتنی پریشان نہ ہوتی ، فلم کے ٹکٹ منگائے تھے بڑی مشکل سے واپس ہوئے ، نہ ہوتے تو تمہیں پیسے بھرنا ہوتے۔
بچے بھی پیچھے پڑ جاتے ، ہم آپ سے نہیں بولتے آپ کل آئے کیوں نہیں۔ اور جرمانے وصول کرکے ملاپ ہوتا اور وہ نہایت پابندی سے آنے لگتے اگر کبھی ریاض کی طبیعت خراب ہوجاتی تو فریدہ بچوں کو لے کر ان کے گھر دھاوا بول دیتی تیمارداری کم، خود اپنی خاطر زیادہ کرواتی ان جھگڑوں سے جانے چھڑانے کے لئے ریاض بیمار ہوتے ہی ان کے گھر آن پڑتے۔ اور پھر ایسا ہی ہونے لگا اگر کسی دن غلطی سے اکبر دفتر سے سیدھے گھر آجاتے تو بچے اور بیوی گھبرا جاتے کہ ان پر یہ کیا مصیبت ٹوٹ پڑی پہلے آنا پڑا۔ فریدہ اور ریاض کا پروگرام لوٹ پوٹ ہوجاتا۔ سینما کے دو ٹکٹ ہوتے تو پھر تیسرا کہیں الگ ملتا اور تکلفاََ ریاض کو الگ بیٹھنا پڑتا۔
مارے شرمندگی کے فریدہ کا مزہ کرکرا ہوجاتا کہ روز تو اس کو وہ جہاں چاہے گھسیٹ لے جاتی ہے ۔ ایک دن شوہر نامدار پھاند پڑے تو اس غریب کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جائے کھانے پر بھی گڑبڑ مچ جاتی ۔ عموماََ اکبر کے لئے میز پر پلیٹ لگائی ہی نہیں جاتی تھی ۔ رات کو ڈھائی بجے پی کر آتے تو اپنے کمرے ہی میں کھانے کی ٹرے منگوالیا کرتےتھے۔ جس دن جلدی آجاتے تو ایسا معلوم ہوتا کوئی مہمان بے وقت ٹپک پڑا ہو۔ جلدی جلدی ان کے لئے جگہ بنائی جاتی ۔
ریاض جو عموماََ فریدہ کے قریب ہی بیٹھاکرتا تھا تاکہ بچوں کو کھانا دینے میں مدد دی جائے آخری کرسی پر دور جا بیٹھتا۔ بچے حیرت سے اس تبدیلی کو دیکھتے فریدہ کو بڑی کوفت ہوتی کیونکہ اکبر بالکل اجنبیوں کی طرح کھاتے رہتے۔ فریدہ کو اکیلے ہی بچوں کو سنبھالنا پڑتا۔
اگر اکبر کچھ مدد کرنے کی کوشش بھی کرتے تو بدمزگی پیدا ہوجاتی ۔
"ارے رے یہ اتنے چاول اس کی پلیٹ مین بھر دیئے ماروگے کم بخت کو؟ یوں بھی اسے کھانسی ہے ، دہی نہ دو ، ارے یہ چٹنی تو بچوں کی تھی تم نے ختم کردی " اور اکبر مجرم سے رہ جاتے۔
"ریاض بیٹھے بیٹھے خود ٹھونس رہے ہو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ بچوں کو بھی دیدو۔ میرے دو ہاتھ ہیں کیا کیا کروں ؟"
وہ ڈانٹتی اور ذرا سی دیر میں ریاض پوری میز کا چارج سنبھال لیتا نہایت حساب کتاب سے وہ کھانا تقسیم کردیتا۔ کسے کونسی بوٹی پسند ہے آج کس کو گودے کی ہڈی کی باری ہے، گردہ کسے ملے گا، کسے رائتہ ملے گا اور کسے سوپ ۔ پھر کسی کو ڈرانا ہے ، کسی کو پھسلانا ہے ، کون ذرا سی ڈانٹ دی تو ساری میز لوٹ پوٹ کردالے گا، کون ڈانٹ بغیر بھوکا بسورتا رہ جائیگا پھر وہ لطیفے اور چٹکلے، روٹی کی کہانی ، بوٹی کا قصہ، مرچوں کے چٹپٹے واقعے، اکبر کو کیا معلوم؟ وہ تو ریاض کو ہی ازبر تھے ۔ وہ ان کے نجی مذاق جو کسی باہر والے کی سمجھ میں نہیں آسکتے تھے اور اکبر باہر والے تھے۔ لومڑی کی دعوت میں سارس کی طرح ہونق اور اکتائے ہوئے کھانا زہر مار کرتے رہتے ۔
اکبر دہلی نہیں جاسکتے تھے چھٹیاں تو تھیں مگر ان دنوں کرکٹ میچ ہو رہے تھے اور وہ میچ کے دیوانے تھے کبھی ریاض بھی ان میچوں کا دیوانہ تھا مگر فریدہ کو ان سے وحشت ہوتی تھی ۔ اس نے کہہ کہہ کر دلچسپی چھڑا دی میچ آتے تو ایسا معلوم ہوتا اس کی جان پر سوتن آگئی ۔ اس لئے اس نے عجیب و غریب چالیں چل کر یہ میچ ریاض سے چھڑوائے ۔ وہ ان دنوں پکنکوں کے پروگرام بنا لیتی ، سینما کے ٹکٹ خرید لیتی ، ڈینٹسٹ سے وقت مقرر کرلیتی۔ ہر وقت میچ کی برائیاں کرتی ۔ بغیر محسوس کئے ریاض کی دلچسپی ختم ہوگئی بال سوئمنگ کا شوق قائم رہا حالانکہ فریدہ کو پانی سے ڈر لگتا تھا مگر وہ بچوں کے ساتھ جاتی ریاض بچوں کو تیرنا سکھایا کرتا اور وہ کنارے بیٹھی سویٹر بُنا کرتی۔
شروع شروع میں اس نے اکبر کے لئے سویٹر بُنے مگر انھوں نے وہ سویٹر خاص طور پر ان دوستوں کو دے دیئے جو فریدہ کو زہر لگتے تھے۔ ریاض کے گھر میں بیس بیس برس کی پرانی چیزیں سینتی رکھی تھیں ہر سال وہ ایک نئے سویٹر کے ساتھ پرانے سویٹروں کی مرمت کردیتی۔
اس کے باوجود اکبر اور فریدہ میاں بیوی تھے ان کے بچے پیدا ہورہے تھے وہ ایک ہی گھر میں ، ایک ہی کمرے میں رہتے تھے ان کے پلنگوں کے درمیان صرف ڈھائی فٹ کا فاصلہ تھا ظاہر ہے بچوں کو لے کر فریدہ کے اکیلے دہلی جانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا مجبوراََ ریاض کا بھی ٹکٹ بنوایا گیا۔
فریدہ اپنے بھائی کے گھر میں ٹھہری، بھائی بھابھی میرٹھ کسی دوست کی شادی میں گئے ہوئے تھے اپنے بچوں کو چھوڑ گئے تھے دہلی میں خوب مزے کئے خوب سیریں کیں پچھلی مرتبہ اکبر کے ساتھ آنا ہو اتھا انہیں باہر جانے سے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔
سرِشام ہی سے لوگ شغل کے لئے جمع ہوجاتے، بڑی چہل پہل رہتی مگر بچے ساتھ نہیں تھے وہ انہیں ریاض کے پاس چھوڑ گئی تھی بالکل نئے سرے سے ہنی مون کا لطف آگیا تھا مگر کبھی کبھی بچوں کی یاد آکر مزہ کرکرا کردیتی بچے جو ریاض کی نگرانی میں چھوڑ گئی تھی۔
مگر اب کی دفعہ بچے ساتھ تھے اکبر کی غیر حاضری اس نے بارہا محسوس کی مگر اب تو کچھ عادت سی پڑ چکی تھی۔ریاض نے خوب سیریں کرائیں تصویریں کھینچیں فریدہ کی اور بچوں کی ہنستی ہوئیں کھلکھلاتی ہوئیں کبھی فریدہ کہتی "ریاض تم بھی تو آؤ کسی سے کہو بٹن دبادے۔" اور ریاض بھی فریدہ کے قریب آجاتا۔ آس پاس بچے ہوتے۔
بھائی کے بچے منو اور شہنہ جو پہلی مرتبہ فریدہ کے بچوں سے ملے تھے ریاض کو انکل کہتے اور بڑے گھل مل گئے مگر ایک دن شہنہ نے بچوں سے بڑے تعجب سے پوچھا۔
"تم اپنے ڈیڈی کو انکل کیوں کہتے ہو"
کسے؟
انکل ریاض کو
سلّی ۔ انکل ریاض ہمارے انکل ہیں۔
"اچھا یہ تمہارے ڈیڈی نہیں ؟ " شہنہ نے معصومیت سے پوچھا۔
اور بچوں نے خوب اس کا مذاق اُڑایا۔
"انکل یہ آپ کو ہمارا ڈیڈی سمجھتی ہے۔اُلو کہیں کی۔" ریاض کھسیانا ہوکر ہنسنے لگا ، فریدہ کو بھی ہنسی آگئی " تو کیا تُو میری بیٹی نہیں؟ " ریاض نے کہا۔
مگر بچی کی سمجھ میں نہ آیا اپنا مطلب کیسے واضح کرے۔
"اوں ۔ بیٹی ہوں آپ کی۔" اور بچی اس کے گلے سے جھول گئی۔
فریدہ کی سہیلی نے دعوت کی ، بچوں کا کیا کیاجائے؟ کل الابلا کھانے سے گلے میں درد ہورہا ہے تم چلی جاؤ میں بچوں کو دیکھ لوں گا۔ ریاض نے سر کا بوجھ ہلکا کردیا۔
فریدہ خوشی خوشی تیار ہوئی مگر جانے سے پہلے اسے غرارے کے لئے پانی دیا، پنسلین کی گولیاں چوسنے کی ہدایت کی ، بچوں کے بارے میں احکامات جاری کئے اور بن سنور کر جانے لگی۔
"افوہ ۔ تمہاری اس یرقان زدہ ساڑھی سے بڑھی وحشت ہوتی ہے قسم خدا کی ایک دن اسے جلا دوں گا۔" ریاض نے پلنگ پر لیٹے لیٹے پکارا۔
ہوں ۔ آپ کون ہوئے ؟ اس نے ٹالنا چاہا مگر قد آدم آئینہ میں دیکھا تو ایسا لگا ریاض ٹھیک ہی کہتا ہے۔ ساڑھی بدل ڈالی۔
پارٹی شاندار رہی سب نے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا۔ یہ بتاتے ہوئے اسے کچھ ہتک محسوس ہوئی کہ وہ میچ کی وجہ سے نہیں آئے کسی کو کچھ کہا کسی کو کچھ ، بات ٹال دی بچوں کو ریاض پر چھوڑ آئی ہوں پریشان کررہے ہوں گے ۔ سہیلی نے روکا تو فریدہ نے کہا۔
"بھئی آپ بھی خوب ہیں میاں سے بچے پلواتی ہیں ۔"
سہیلی کے میاں نے شکایت کی۔
مگر میاں تو بمبئی میں ہیں ۔
"آپ تو کہہ رہی تھیں بچے ریاض پر چھوڑ آئی ہوں۔"
"اے ہے ڈارلنگ ہاؤ سلّی ، فَری کے ہسبینڈ کا نام تو اکبر ہے۔" دوسری سہیلی نے جگہ صاف کی۔
"اوہ ۔ اور ریاض ۔۔۔؟
"اکبر کے بچپن کے دوست بلکہ بھائی ہی سمجھیئے۔"
"بلکہ اکبر ہی سمجھ لیجیئے تو کیا حرج ہے۔" زوردار قہقہہ پڑا۔
فریدہ کو ذرا سی کوفت ہوئی ، کتنے چیپ ہیں یہ لوگ ، ہُوں۔۔۔ لعنت انہیں کون سمجھائے کئی بار لوگوں نے غلطی سے ریاض کو اس کا شوہر سمجھ لیا۔ اسے بُرا نہ لگا بس وہ لوگ نہایت احمق سے لگے۔
ہُوں۔۔۔ کیا ہوتا ہے ان باتوں سے کیا بگڑتا ہے مگر بات زیادہ سنورتی نہ معلوم ہوئی ۔
اس کی سہیلی نے کہا، "ریاض کی شادی زینت سے کیوں نہیں کروا دیتیں۔۔۔؟"
"ارے بھئی کتنی دفعہ کہہ چکی ہوں کم بخت سے سنتا نہیں مذاق میں ٹال دیتا ہے۔"
"تم کہوتو وہ ضرور مانے گا ۔"
"تو تمہارا مطلب ہے میں نے اس سے نہیں کہا۔"
فریدہ کچھ جلی ۔
نہیں ذرا زور ڈالو۔
"میں کیسے زور ڈالوں ۔ کوئی بچہ ہے کہ پچھاڑ کر دوا پلا دوں۔" وہ اور بگڑی۔
اے ہے بگڑنے کی کیا بات ہے۔۔۔
"میں تو خاک نہیں بگڑتی " فریدہ نے بہت ہی بگڑ کر کہا۔
"اچھا جانے دو۔" سہیلی اپنی جان چھڑا کر بھاگی۔
فریدہ کھسیانی رہ گئی ، لوگ سمجھتے ہیں وہ ریاض کی شادی نہیں ہونے دیتی۔ اسے ریاض پر غصہ آنے لگا کمبخت سے اس نے کئی بار کہا کہ ، کم بخت شادی کیوں نہیں کرتا ، ہمیشہ ٹال جاتا ہے۔
"بھئی میں جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔" اور وہ بچوں کے ساتھ اودھم مچانے لگتا یا ڈانٹ کر ان کا ہوم ورک کروانے لگتا اس کی رپورٹ پر نظر رکھنا، استادوں سے ملنا یہ بے چارے اکبر کے بس کی بات نہ تھی ۔ وہ بے دیکھے دستخط کردیتے اور کہہ دیتے ۔" ریاض سے کہو اچھی طرح دیکھ لے میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔"
ایک دن ریاض بڑے غصے میں باہر آیا اور فریدہ کو ڈانٹنا شروع کیا۔ کچھ ہوش بھی ہے۔ صاحبزادی ابھی سے پیر نکال رہی ہے جانے کن لونڈوں کے ساتھ گھوم رہی تھی ۔ میرا قسم خدا کی خون کھول گیا۔
"میرا تو کہنا ہی نہیں مانتی۔"
فریدہ نے روہانسی ہوکر کہا۔
"نہیں مانتی تو ٹھوکو چڑیل کو ، نہیں تو میں ٹھوکوں گا۔"
مارپیٹ سے کیا ہوگا۔۔۔؟
پھر دونوں گھنٹوں بچوں کی نفسیات کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہے۔
دونوں میں سے کسی کو خیال نہ آیا کہ اس معاملے میں اکبر کی رائے بھی لی جائے ۔ کیا فائدہ بیکار پریشان ہوں گے ان کی شراب نوشی اتنی بڑھ گئی تھی کہ ذرا سی بات پر ہی پریشان ہوجاتے تھے۔ اور پھر سب کی زندگی حرام ہونے لگتی تھی ۔
دہلی کی سیر ہوچکی تھی چھٹیاں بھی ختم ہورہی تھیں ۔ فریدہ کو بھاوج کا انتظار تھا کہ آجائیں تو ان سے مل کر جائے۔
"اکبر نہیں آئے؟" انہوں نے آتے ہی حیرت سے پوچھا۔
انہیں کچھ کام تھا۔ فریدہ صفا جھوٹ بول گئی۔
"اور یہ باہر کمرے میں کون ٹھہرا ہوا ہے۔۔۔؟"
ریاض ۔ فریدہ نے لاپرواہی سے کہا۔ مگر اسے کچھ ڈر لگنے لگا۔
"ریاض یعنی وہ تمہارے ساتھ یہاں بھی آیا ہے۔۔۔؟"
ہاں ۔۔ مگر۔۔ ، فریدہ ان کے لہجے سے چونکی ۔
"میں ان حرکتوں کو قطعی پسند نہیں کرتا۔" وہ غرّائے۔
اے ہے جانے بھی دیجیئے۔ بھابھی نے سمجھایا ، باہر آواز جائے گی۔
"آواز جائے گی تو جانے دو۔ میں کسی حلال زادے سے درتا ہوں۔۔۔"
شرم نہیں آتی اب تو بیٹی جوان ہورہی ہے تمہارے یہ گن دیکھ کر وہ کیا سیکھے گی تم اکبر کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو مگر مجھےاُلو نہیں بنا سکتیں دنیا تمہارے جنم میں تھوک رہی ہے۔
"جنم میں تھوک رہی ہے۔۔۔؟" فریدہ نے سوچا۔
اکبر جیسا بے شرم میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ کیا اسے کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔؟
"کیا نظر نہیں آتا۔۔۔؟ " فریدہ نے اور سوچا۔
مگر تمہاری یہ ہمت کہ تم میرے گھر میں یہ غلاظت پھیلارہی ہو۔۔۔
"غلاظت۔۔۔" سوچتے سوچتے فریدہ کی کنپٹیاں جھنّا گئیں۔
اپنے یار کو ساتھ لئے پھرتی ہو۔بھابھی نے بہت روکا مگر وہ بَک ہی گئے ۔ "یار۔"
فریدہ کا جی چاہا زور کا قہقہہ لگائے ریاض اس کا یار ہے مگر ہنسی اس کے گلے میں سسک کر رہ گئی ۔ بیس برس زن زن کرتے نظروں میں گھوم گئے ۔ یار ! دنیا کی نظروں میں ریاض اس کا یار نہیں تھا تو پھر کون تھا۔۔۔؟
0 Comments
Thanks for your feedback.